• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بگڑتی ہوئی اقتصادی صورت حال پر طویل غورو فکر، اعلیٰ معاشی ماہرین سے مشاورت اور دوست ملکوں کو اعتماد میں لینے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے اقتصادی منشور کو بروئے کار لانے کی خاطر معیشت کی بحالی اور استحکام کے لئے بالآخر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے فوری طور پر رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر اس مقصد کے تحت ایک مضبوط معاشی ٹیم کے ہمراہ آئی ایم ایف سے باقاعدہ مذاکرات کے لئے انڈونیشیا روانہ ہوگئے ہیں۔ حکومتی ٹیم تین سال کے قرضہ پیکیج کے لئے مذاکرات کرے گی۔ ماہرین نے توقع ظاہرکی ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کو تقریباً ساڑھے سات ارب ڈالر کا قرضہ کڑی شرائط پر مل سکتا ہے، پاکستان میں ماضی کی ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کی ناقص پالیسیوں کارونار وتے ہوئے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور ہوتی رہی اور سخت شرائط پر اس سے قرضہ لیتی رہی۔ اس لئے موجودہ حکومت کا آئی ایم ایف سے رجوع کرنا کوئی انوکھی بات نہیں۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ اس حکومت کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ تباہ حال معیشت ملی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کے مطابق ان کی حکومت کو ورثے میں6.6فیصد مالیاتی اور10کھرب روپے سے زائد کا خسارہ توانائی کے شعبے میں ملا ہے۔ ماہانہ دو ارب ڈالر کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ اس کے علاوہ ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکومت کے پاس کھربوں کے بیرونی قرضے اتارنے کے لئے زرمبادلہ کے ذخا ئر بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ایسے میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا اور حکومت نے یہ راستہ اختیار کرکے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کمزور طبقے پر حکومت کے مشکل فیصلوں کے اثرات کم سے کم کرنے کے لئے کیا ہے۔ اصل ہدف صاحب استطاعت افراد ہیں۔ حکومت کو ادائیگیوں کا توازن اور کئی دوسرے مالیاتی اقدامات درست کرنے کی فوری ضرورت تھی اسی لئے وہ ضمنی مالیاتی ترمیمی بل بھی لائی اور اشیائے تعیش پر ڈیوٹی بڑھائی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آئی ایم ایف سے جو قرضہ ملے گا اس کے ساتھ بعض کڑی شرائط بھی وابستہ ہوں گی مثلاً اس نے ٹیکس نیٹ بڑھانے، گردشی قرضے کم کرنے، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے، سرکاری اداروں کے خسارے میں کمی کے لئے نجکاری پروگرام پر عملدرآمد، روپے کی قدر کم کرنے شرح سود میں اضافے ،گورننس بہتر کرنے اور سبسڈیز ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اس سے عوام کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہوںگی مگر ملکی معیشت کے استحکام کو یقینی بنانے اور اقتصادی معاملات کو معمول پرلانے کے لئے حکومتوں کو یہ کڑوی گولی نگلنا پڑتی ہے۔ اس وقت ملک کی معاشی حالت یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی اور سرمائے کے انخلا میں تیزی کے باعث سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی ہے پیر کو سٹاک ایکسچینج کا ہنڈرڈ انڈیکس 38ہزار سے بھی نیچے آگیا ہے جو دو سال قبل 55 ہزار تک پہنچ گیا تھا اوپن مارکیٹ میںروپیہ کی قدر کم ہو رہی ہے اور ڈالر کا نرخ135روپے تک پہنچ گیا ہے۔ حکومت یکم نومبر سے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی بڑھانے والی ہے۔ ورلڈ بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی بیرونی دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہو گئی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہو سکتے ہیں۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی شرح سود کی وجہ سے پاکستان کو بہت زیادہ بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑے گی۔ آئندہ دو برس میں کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارہ اور بڑھے گا۔ ان حالات میں آئی ایم ایف کا قرضہ معاشی صورتحال میں بہتری کا سبب بنے گا اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کا بھی پاکستان پر اعتماد بڑھے گا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قرضے کو بہترین استعمال میں لایا جائے معاشی سرگرمیوں کے لئے حالات سازگار بنائے جائیں، سیاسی کشیدگی پر قابو پایا جائے اور کوشش کی جائے کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے عام آدمی پرمہنگائی سمیت کم سے کم اثرات مرتب ہوں۔

تازہ ترین