• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بکتر بند گاڑی لاہور شہر کی مرکزی شاہراہ پر تیزی سے گزر رہی تھی جس میں بیٹھا شخص گاڑی کی جالیوں سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا مگر آج اِسے اُس شہر کی خوبصورتی سے کوئی مسرت حاصل نہیں ہورہی تھی جسے اُس نے دن رات محنت کرکے ایشیا کے خوبصورت ترین شہروں کی صف میں شامل کیا تھا، وہ یہ سوچ رہا تھا کہ میں نے ایمانداری، خلوص نیت اور عوامی خدمت کے جذبے کے احساس کے ساتھ اس صوبے اور شہر کو خوبصورت بنانے کیلئے اپنی صحت کا خیال تک نہیں رکھا۔ لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں میٹرو بسوں کا جال بچھایا۔ شہریوں کیلئے اورنج ٹرین منصوبہ شروع کیا۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں انقلابی اقدامات کئے اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے صوبہ پنجاب دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سب سے آگے نکل گیا، بجلی کے کارخانوں سے قوم کے اربوں روپے بچائے اور جس تیزی سے میرے شروع کئے گئے منصوبوں کی تکمیل ہوئی، میری اسپیڈ اور گورننس کی مثالیں دوست ملک چین میں بھی دی جانے لگیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کارناموں کے صلے میں مجھے تمغوں سے نوازا جاتا مگر اس جرم کی پاداش میں میری حکومت کا خاتمہ کردیا گیا اور اب مجھے گرفتار کرکے مجرموں کی طرح بکتر بند گاڑی میں شہر کی سڑکوں پر پھرایا جارہا ہے ۔ بکتر بند گاڑی میں بیٹھے شخص کو اسی دوران کچھ مہینوں قبل کے وہ واقعات یاد آگئے جب اُس کی ایک کال پر پورا لاہور شہر امڈ آیا تھا اور وہ لینڈ کروزر میں سوار تھا جبکہ لوگ شہر کیلئے کی گئی اُس کی خدمات کے صلے میں اس پر پھول نچھاور کررہے تھے ۔ بکتر بند گاڑی جیسے ہی احتساب عدالت کے احاطے میں داخل ہوئی تو وہاں پر اُس کے چاہنے والوں کا جم غفیر موجود تھا جو اُس کی ایک جھلک دیکھنے اور اُس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کیلئے وہاں جمع تھا۔ اُسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے احتساب عدالت کے جج کے سامنے پیش کیا گیا جس نے اُسے 10روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔ نیب اہلکار اُسے پھر گھسیٹتے ہوئے گاڑی میں بٹھاکر نیب لاہور ہیڈ کوارٹر لے گئے اور اسے سیل میں بند کردیا گیا جہاں کوئی بستر بھی نہیں تھا۔ کہتے ہیں کہ اگر آپ نے کوئی جرم کیا ہے تو خوف آپ کو سونے نہیں دے گا لیکن اگر آپ بے گناہ ہیں تو فرش پر بھی آپ کو پرسکون نیند آجائے گی۔ یہی کچھ اس شخص کے ساتھ ہوا جسے فرش پر پڑے میٹرس پر لیٹتے ہی نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ صوبہ پنجاب کا تین مرتبہ منتخب ہونے والا وزیراعلیٰ شہباز شریف تھا جسے آشیانہ ہائوسنگ اسکیم میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا حالانکہ آشیانہ اسکینڈل کے بارے میں قائم کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ اسکیم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ تھی جس میں پنجاب حکومت نے زمین دینا تھی اور کنٹریکٹر نے اپنے خرچے پر گھروں کی تعمیر کرنا تھی مگر منصوبہ منسوخ ہوگیااور حکومت کی زمین حکومت کے پاس رہی جبکہ کنٹریکٹر کو بھی کوئی رقم ادا نہیں کی گئی۔ اس طرح اس اسکینڈل میں کسی قسم کی کرپشن کا کوئی وجود ہی نہیں۔ شاید یہی وہ وجہ تھی کہ شہباز شریف نے نیب عدالت میں اپنی پہلی ہی پیشی میں یہ مطالبہ کیا کہ اُن کا مقدمہ کھلی عدالت میں چلایا جائے۔

ضمنی انتخابات سے قبل شہباز شریف کی گرفتاری پر ایک سوچے سمجھے منصوبے اور سیاسی و انتقامی کارروائی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو جیل بھیج دیا گیا تھا تاکہ وہ الیکشن سرگرمیوں میں حصہ نہ لے سکیں۔ آج ایک بار پھر ضمنی انتخابات سے کچھ روز قبل پارٹی کے صدر شہباز شریف کی گرفتاری سے یہی تاثر ابھرکر سامنے آرہا ہے۔ انصاف کا یہ عالمگیر اصول ہے کہ جب تک کسی ملزم پر جرم ثابت نہ ہوجائے، اس وقت تک وہ بے قصور ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں کسی شخص کے خلاف منفی خبریں انٹرنیٹ پر ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجاتی ہیں اور وہ دنیا کی نظر میں مجرم ٹھہرتا ہے، نیب کو محض الزامات اور اسکینڈلز کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو قرار دینے اور ان کی پگڑی اچھالنے کی روایت کا خاتمہ کرنا چاہئے ۔

شہباز شریف (ن) لیگ میں مفاہمت کی آواز سمجھے جاتے تھے جن کی گرفتاری اور اب اُن کے بیٹے سلمان شہباز کی نیب میں طلبی سے مفاہمتی سیاست کو نقصان پہنچا ہے۔ نواز شریف جنہوں نے 40 دن تک سیاست سے کنارہ کشی کا کہا تھا، اب انہوں نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی اور کہا ہے کہ نیب نے شہباز شریف کو عمران خان کی ایما پر گرفتار کیا ہے۔ انہوں نے پارٹی کو سیاسی انتقام کے خلاف احتجاجی تحریک کے آغاز کرنے کی ہدایت کی ہے۔ شہباز شریف پر لگائے گئے الزامات اور گرفتاری صحیح ہے یا غلط؟ اس کا فیصلہ وقت اور اعلیٰ عدالتیں کریں گی لیکن اگر کل ہائیکورٹ نے شہباز شریف کو الزامات سے بری کرکے بے قصور قرار دے دیا تو آج انہیں جس طرح مجرم بناکر پیش کیا جارہا ہے اور ان کی جو تضحیک کی جارہی ہے، کیا کل اس کا مداوا ہوسکے گا؟ اگر صرف شریف فیملی پر کیس بنتے رہے، ان کا احتساب ہوتا رہا تو قوم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوگی کہ کیا (ن) لیگ کے علاوہ دوسرے سیاستدان ’’دودھ کے دھلے‘‘ ہیں۔واضح رہے کہ یوسف رضا گیلانی، چوہدری پرویز الٰہی، علیم خان، بابر اعوان اور دیگر پی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف نیب ریفرنسز چل رہے ہیں جبکہ عمران خان کی ہمشیرہ پر بھی یہ الزام ہے کہ ان کی دبئی میں 50 ارب روپے کی پراپرٹی ہے مگر ان افراد کے خلاف نیب نے کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا۔

زندہ قومیں اپنے ہیروز کے احسانات ہمیشہ یاد رکھتی ہیں لیکن ہمارا اپنے ہیروز کے احسانات اتارنے کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان بنانے کے احسان کا بدلہ ہم نے اُن کی بہن فاطمہ جناح کو وطن دشمن قرار دے کر دیا، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار بھٹو کو پھانسی چڑھادیا، پاکستان کے میزائل پروگرام کی بانی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو قتل کردی گئیں، ایٹم بم کے خالق اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے احسانات کا بدلہ ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے اُنہیں ٹی وی پر بے عزت کرکے اتارا ۔ کیا ہیروز کی خدمات پر ان کے ساتھ کئے جانے والے ناروا سلوک کے بعد بھی کوئی اس ملک کا ہیرو بننا پسند کرے گا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین