• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ’’پہلے امریکہ‘‘ کے نعرے کو عملی شکل دینے کے لئے ا پنے یورپی اتحادیوں اور پڑوسی ملکوں ، کینیڈا اور میکسیکو، کے ساتھ بر سر پیکار ہونے کے علاوہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کو روکنے کے لئے ہر ہتھکنڈا استعمال کر رہے ہیں۔ وہ عالمی سطح پر امریکہ کی 1950کی دہائی جیسی سامراجی طاقت کا احیا چاہتے ہیں کیونکہ اس زمانے میں یورپ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے تباہ حال ہوتے ہوئے امریکہ کا دست نگر تھا۔ وہ اپنی خارجہ پالیسی کی طرح امریکہ کے اندر بھی 1950جیسا وہ نظام واپس لانا چاہتے ہیںجس میں اقلیتوں (بالخصوص کالے امریکی) اور خواتین کے حقوق بہت محدود تھے اور سفید فام بلا شرکت غیرے حکومت کر رہے تھے۔ ان کی سادہ سی سیاسی حکمت عملی یہ ہے کہ امرا، معاشی لحاظ سے پیچھے رہ جانے والے سفید فام امریکیوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے اتحاد کے ذریعے حکومت کی جائے:وہ بڑھتے ہوئے غیر سفید فام تارکین وطن کا ’’ہو ّا‘‘ دکھا کر سفید فام قوم پرستی کو ہوا دے رہے ہیں۔ امریکہ میں سیاسی تقسیم اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ایک سروے کے مطابق 61فیصد امریکی نہیں چاہتے کہ ان کے بچوں کی شادی مخالف پارٹی سے ہمدردی رکھنے والے افراد کے ساتھ ہو۔ سیاسی اختلافات قبائلی نظام کی اس قدر شکل اختیار کر چکے ہیں کہ ملک کے سب سے طاقتور ادارے ،سپریم کورٹ، کے ایک نامزد جج کھلم کھلا ڈیمو کریٹ ، بائیں بازو اور خواتین تنظیموں کے خلاف متشددبیانات دے رہے ہیں۔ لیکن یہ صورت حال امریکہ تک محدود نہیں ہے۔

ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی کی رہنمائی میں حکومت کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی بھی صدر ٹرمپ کی طرح ہی ہندوتوا کے نعروں کے ذریعے ہندو ووٹ یکجا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ مسلمانوں، عیسائیوں ، دلتوں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف زہر افشانی کر کے خالص ہندو راج کے قیام کیلئے کوشاں ہے۔ ہندوستان کی ستر سالہ تاریخ میں نریندر مودی پہلے وزیر اعظم ہیں جو صرف ہندو ووٹ کی بنیاد پر وزیر اعظم بنے ہیں اور شاید بی جے پی پہلی پارٹی ہے جس میں مسلمان یا دوسری اقلیتوں کے لوگوں کو الیکشن کا ٹکٹ نہیں دیا جاتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح نریندر مودی نے بھی انتہا پسند ہندوتوا کا ہندوستان کے سرمایہ دار طبقے سے اتحاد بنا رکھا ہے۔ ہندوستان میں بھی سیاسی تقسیم اتنی گہری ہو چکی ہے کہ سیاسی مخالفین کو قابل گردن زنی سمجھنا عقیدوں کا حصہ بن چکا ہے۔

قابل غور امر یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی آندھیاں چلتی رہیں، فرقہ وارانہ فسادات میں معصوم لوگ لقمہ اجل بنتے رہے اور کراچی کی ٹارگٹ کلنگ میں ہزاروں نے اپنی جانیںگنوائیں لیکن اس سارے عرصے میں امیروں کی تعداد درجنوں سے بڑھ کر لاکھوں میں ہو گئی۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور امیروں کی دولت بڑھنے کے عمل میں کوئی تو مشترکہ عنصر ہوگا؟ غرضیکہ پاکستان میں بھی مذہبی انتہا پسندی اور سرمایہ دار طبقے کے درمیان ایک غیر اعلانیہ اتحاد تھا۔ اس کی ابتدائی حالت واضح ہے کہ ضیاالحق نے بیک وقت مذہبی انتہا پسندی کو مروج کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کی قومیائی ہوئی صنعتوں کو ان کے وارثوں کو واپس کیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے عروج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح حکومت اور مذہب باہمی اتحاد کا نمونہ تھے: میاں نواز شریف کے خلیفتہ المسلمین بننے کی آرزو اس کا بین ثبوت ہے۔

اوپر تین مختلف ملکوں کا ذکر ہوا ہے جن میں ایک ہی زمانے میں مذہبی بنیاد پرستی میں اضافہ ہونا شروع ہوا ، اس کا اتحاد سرمایہ دار طبقے کے ساتھ ہوا اور سیاسی تقسیم گہری ہوتی گئی۔ امریکہ میں یہ رجحان 1980میں رونلڈ ریگن کے صدارتی الیکشن جیتنے کے ساتھ شروع ہوا۔اسی سال6 اپریل 1980کو بی جے پی کی بنیاد رکھی گئی اور یہی وہ زمانہ ہے جب ضیاالحق نے رجعت پرست سیاست کو آگے بڑھانا شروع کیا۔ اس سے پہلے امریکہ میں قدامت پرست ایونجلسٹ عیسائی تنظیموں کا کوئی خاص وجود نہیں تھا، ہندوستان میں ہندوتوا کے ماننے والے معدودے چند تھے اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی، حکومت کی اسلامائزیشن کے باوجودروشن خیال تصور کی جاتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ تین مختلف طرح کے ملکوں میں ایک ہی زمانے میں ایک ہی طرح کے رجحانات پیدا ہونے کی کوئی مشترکہ وجہ ہوگی۔ یہ سماجی علوم اور فکر کی کم مائیگی ہے کہ ہم بین الاقوامی مظاہر کو قومی سرحدوں کی حدود و قیود کے ڈھانچے میں دیکھنے تک محدود ہو گئے ہیں۔

اگر ہم معاشی سیاست کے تاریخی تناظر کے حوالے سے دیکھیں تو یہ نظر آتا ہے کہ 1980کی دہائی میں کمپیوٹر ایجاد ہوا اور 1990کی دہائی میں انٹرنیٹ نے دنیا میں کمیونکیشن کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ ٹیکنالوجی اور اطلاعاتی نظام کے انقلاب نے گلوبلائزیشن کو جنم دیا اور دنیا میں سرمایے اور آبادیوں کی نقل مکانی میں تاریخی اضافہ ہوا۔ نہ صرف غریب ممالک کے تارکین وطن نے صنعتی لحاظ سے امیر ملکوں کا رخ کیا بلکہ ملکوں کے اندر بھی آبادیاں دیہات سے شہروں کی طرف تیزی سے منتقل ہونا شروع ہو گئیں۔ ایشیا کے اکثر ممالک میں قدیم زرعی نظام ختم ہوتا گیا اور اس کی جگہ تجارتی اور صنعتی نظام نے لے لی۔ ایشیاسے لے کر یورپ اور امریکہ تک پیداواری ڈھانچے یکسر تبدیل ہو گئے۔ ظاہر بات ہے کہ اس طرح کی بنیادی تبدیلیوں نے سماجی اور سیاسی رجحانات کو بھی تبدیل کیا ہوگا لیکن ہم اپنی فکری کم مائیگی کے باعث اس سارے عالمی مظہر کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بقول غالب:

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے

نے باگ ہاتھ میں ہے نہ پا ہے رکاب میں

تازہ ترین