• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری اہلیہ نے مجھے گرے کلر کا سوٹ پہننے سے منع کر دیا۔ میرے لیے یہ حیرانی کی بات تھی کہ جو سوٹ مجھے اور میری اہلیہ‘ دونوں کو بہت اچھا لگتا ہے اور میں نے چند ہفتے قبل ہی ایک شادی کی تقریب میں پہنا تھا اور سب نے دل کھول کر نہ صرف اس کی تعریف کی تھی بلکہ یہ بھی پوچھا تھا کہ یہ سوٹ کہاں سے خریدا یا سلوایا ہے، جبکہ شادی کی تقریب میں جانے سے پہلے ہی میری اہلیہ نے یہ کہہ دیا تھا کہ آپ کو یہ سوٹ بہت سوٹ کر رہا ہے۔ اس لیے اس تقریب کے لیے یہ سوٹ پہننے کا فیصلہ کرنا بہت آسان تھا چونکہ مجھے تقریب میں بطور چیف گیسٹ بلایا گیا تھا، اس لیے سوٹ بھی ایسا ہونا چاہیے تھا جو بہترین ہو۔ بطور چیف گیسٹ یہ کوئی پہلی تقریب نہ تھی لیکن پھر بھی میرا دل چاہا کہ میں اپنا بہترین سوٹ پہنوں لیکن میری اہلیہ کی طرف سے گرے سوٹ نہ پہننے کا مشورہ حیران کن تھا۔ میں نے ازراہِ تفنن اپنی اہلیہ کو کہا کہ میں جس تقریب میں جا رہا ہوں وہ لڑکوں کا اسکول ہے، وہاں خواتین مدعو نہیں کی گئیں، میری اہلیہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اسکول کی تقریب میں آپ کو سوٹ کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کی شخصیت کی وجہ سے بلایا جا رہا ہےآپ کو بھی وہاں عام لباس میں جانا چاہیے تاکہ وہاں کا اسٹاف اور بچے آپ کو اپنے جیسا ہی انسان سمجھیں اور غیر ضروری پروٹوکول کے چکر میں پڑنے کے بجائے آپ سے بات کرنے میں آسانی محسوس کریں۔ میں اپنی اہلیہ کی بات سمجھ چکا تھا۔

اسکول میں ایک تقریری مقابلہ تھا، میں جب اسکول پہنچا تو لائن میں کھڑے بچوں نے ہمیشہ کی طرح پہلے گلاب کی پتیاں نچھاور کیں، اپنے ایک پرانے کالم میں بھی یہ کہہ چکا ہوں کہ پھولوں کی پتیاں اور گلے میں ہار ڈالنے والا کلچر مجھے عجیب لگتا ہے۔ بچوں کی قطار اور پھولوں کی پتیوں کا سامنا کرنے کے بعد جب آگے پہنچا تو پرنسپل صاحب جو ایک بزرگ اور قابل احترام استاد تھے، نے میرے گلے میں ایک خوبصورت سا ہار پہنا دیا جس سے مجھے شرمندگی محسوس ہوئی کہ ایک بزرگ استاد جنہیں خود پروٹوکول ملنا چاہیے،وہ میرے گلے میں ہار ڈال رہے ہیں۔ جس موضوع پر تقاریر کی جانی تھیں وہ بہت اچھا تھا ’’پاکستان کے مسائل اور ان کا حل‘‘ اس پر بچوں نے اپنے تئیں بہت اچھی اچھی تقاریر کیں لیکن ایک پرجوش بچے نے اپنی تقریر پر خوب داد حاصل کی۔ اپنی تقریر کے آغاز میں ہی اس بچے نے ایک پرجوش شعر پڑھا اور شعر کے الفاظ کی شاندار ادائیگی پر خوب داد حاصل کی۔ تقریباً آٹھ کے قریب بچوں نے اس تقریری مقابلے میں حصہ لیا اور زیادہ تر بچوں نے دھیمے لہجے میں دلائل سے تقریر کرنے کی بجائے جوش سے تقریر کرنے کا مظاہرہ کیامیں نے یہ محسوس کیا کہ دھیمے لہجے والے بچوں کی تقریر کے دوران حاضرین اور اساتذہ بچوں کی باتوں پر توجہ دینے کی بجائے آپس میں کھسر پھسر کرنے لگتے اور کوئی بھی ان کی باتوں پر دھیان نہ دیتا۔ جب رزلٹ انائونس کیاگیا تو اس میں بھی ججز نے اُس بچے کو فاتح قرار دیا جس کی آواز میں گھن گرج زیادہ اور اشعار کا استعمال اور کفار کے خلاف جنگ وغیرہ کی باتیں کی گئی تھیں۔ میں نے مقابلے کے بعد بطور چیف گیسٹ بچوں میں انعامات تقسیم کئے اوربچوں، اساتذہ اور ججز کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی کہ ہمیں جوش سے زیادہ ہوش سے مسائل کے ادراک کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ اس پر درست سمت میں اقدامات اور فیصلوں کی بھی ضرورت ہے میں نے محسوس کیا کہ بچوں کا تقریری مقابلہ ہو یا قومی سیاست دانوں کی تقاریر، ہم صرف گھن گرج اور غیر حقیقی باتوں پر خوش ہوتے ہیں اور جب معاملات اور نتائج اس کے برعکس ہوتے ہیں تو تنقید کے نشتر چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد جو دھیمے مزاج کے سربراہ لیکن عملی طور پر ایک پرجوش شخص ہیں، نے آج ملائیشیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہمیں بھی جوش سے نہیں ہوش کا سہارا لے کر حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے تقاریر اور فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ تقریر پر ’’پہلے تالیاں اور پھر گالیاں‘‘ کی روایت ختم نہیں ہو سکے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین