• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا پاکستان کی قسمت پھوٹ چکی ہے ؟پیدائشی اندھوں کو آپ سرخ اور سبز رنگ کے فرق کو کیسے سمجھا سکتے ہیں؟ ایک نجی ٹی وی پر شہباز شریف کی شہرت، عزت ، عظمت کو چار چاند لگائے جا رہے تھے ۔بلکہ آخری خبر آنے تک71 فیصد”مقبوضہ رائے عامہ“ اپنا حق ِرائے دہی شہباز شریف کے حق میں استعمال کر چکی تھی ۔لیکن عمران خان کا بھوت سر پرپھر بھی سوار۔مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ریٹنگ زدہ نوجوان اینکر نے اپنے ایک فکسڈ پروگرام کے نتائج اوراپنی درگت کے انجام سے یکسربے خبرکیوں نظر آیا؟میری وجہ نزاع تب بنی جب ناٹک کرنے والے نے”پکے پکائے“ سوالوں پرخادم اعلیٰ ”مقبولیت “اور وضاحتوں کے درمیان ”پہلے سے طے شدہ“جواب دیتے ہوئے فرماگئے کہ ”خدا کی قسم میرے دور میں کرپشن ثابت نہیں ہو گی ۔“ کہا تو جائے گا کہ یہ لغزش زبان تھی مگر اپنی ذات ِاقدس پر ایسا قبیح الزام یقیناحق شناس تجزیے کا متقاضی ہے حضور میرا بیان حلفی بھی حاضر ہے۔ پنجاب کے حکمران خاندان نے ہی توکرپشن کو فنونِ لطیفہ کا درجہ دیا ہے ۔سیاست کے تخت شاہی نے آپ کو ارب پتی بنایا اور عوام کوآپ نے کَکھ پتی بنا دیا۔چند دانش سکولوں کی دانشمندی اور ہزاروں گورنمنٹ سکولوں کی جبری بندی۔چند سوبچے مستفید ہو کر ایچی سونین بن چکے جبکہ ایک لاکھ غریب بچے سکول سے محروم دربدرکی ٹھوکروں پر مجبور۔یہاں ذہنی استعداد زیرِبحث نہیں وگرنہ لاہور میں ہونے والا ہر منصوبہ حماقت اورجہالت کا تکلیف دہ امتزاج ہے۔ زعم ایسا کہ ”میرا دور پچھلے ادوار سے کم بدعنوان “ وزن رکھتا ہے ۔ اگرچہ بتانا ہو گا کہ آپ کے پچھلے ادوار کی FIRکس کے خلاف درج ہونی چاہیے ؟ نہ احساسِ ندامت نہ احساسِ زیاں ۔ نعرے سنیں”بدل دیں گے پاکستان“ ۔ پاکستان صرف وہ بدلے گا جو سیاست سے تجارت کی تمنا نہیں رکھتا۔کتاب الحکمت میں سخت سے سخت گناہ پر توبہ کا دروازہ کھلا ہے لیکن لوٹ کھسوٹ اور حرام مال پر بخشش نہیں۔ مجبور قرض دار اگر ادائیگی کے بغیر فوت ہو جائے تو جنازہ جائز نہیں۔
حضرت ابو بکر خلیفہ مقرر ہوتے ہی اپنی کپڑے کی دکان کی طرف چل پڑے ۔ حضرت عمر نے عرض کیااے خلیفہ آپ اپنی دکان کس اصول پر چلائیں گے؟ اورپھرعام شہری دوسرے کی دکان کا مال کیسے خرید پائے گا؟کیا انصاف کے تقاضے پامال نہیں ہوں گے؟خلافت ِ منصب سے پہلے کی دکان جو واحد ذریعہ آمدن تھا۔ آپ نے تالا لگایااور اپنے آپ کو امورِمملکت کے لیے وقف کردیا ۔
قائداعظم نے تاجروں اور زمینداروں کی نشاندہی کرتے ہوئے تاریخی الفاظ فرمائے ۔
”میں زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کر دوں۔ اس طبقے کی خوشحالی کی قیمت عوام نے ادا کی ہے۔ اپنی مقصد برآوری کے لیے عوام کا استحصال کرنے کی خوئے بد ان کے خون میں رچ گئی ہے۔ وہ اسلامی احکام کو بھول چکے ہیں۔ حرص وہوس نے سرمایہ داروں کو اندھا کر دیا ہے کہ وہ جلبِ منفعت کی خاطر دشمن کا آلہ کاربن جاتے ہیں۔ ہمارے عوام میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہیں دن میں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ کیا آپ اسے تہذیب اور ترقی کہیں گے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصد ہے ؟ اگر پاکستان کاحصول اس صورتِ حال میں تبدیلی نہیں لاسکتاتو پھراسے حاصل نہ کرنا ہی بہتر سمجھتا ہوں“۔ (اجلاس مسلم لیگ‘ دہلی ۔24 مارچ1943ء)
پڑوسی ملک بھارت میں کیا یہ تصور ممکن ہے کہ وزیرِاعظم منموہن سنگھ اقتدار کے دوران چینی کا کارخانہ چلا رہے ہوں یا مرغی، انڈہ، دودھ ، دہی،گوشت یا پراپرٹی کے کاروبار میں ملوث پائے جائیں۔ یہ انہونی ہمارے مقدر میں ہی کیوں؟
زردار ی صاحب کو اقتدار میں آئے کتنے دن ہوئے جب وہ کمالِ ڈھٹائی سے فرانس میں محل کا سودا کرنے پہنچے۔ شریف برادران نے 2008 کا اقتدار ملتے ہی جاتی عمرہ کے گردونواح میں اپنی جائیداد کو دگنا کیااور علاقے پر اتنے حکومتی وسائل خرچ کیے کہ جائیداد کی قیمت 10 گنا بڑھ گئی۔ ایم ایم عالم روڈ لاہور کی تزئین وآرائش ایک مخصوص پلازہ کی مرہونِ منت ٹھہری ( یہ صاحب خادمِ اعلیٰ کے وہ داماد ہیں جو” عدل جہانگیری“ کی ترویج ونمائش کے لیے بغیر کسی جرم کے جیل یاترا کر آئے ۔ پولیس بمشکل ماڈل ٹاؤن یارڈ کی مدد سے اس نتیجے پر پہنچی کہ موصوف بے گناہ ہیں ۔جبکہ قصوروار غریب اہلکارٹھہرے جو غیر قانونی طور پر حکمران خاندان کی خدمت پر مامور ہیں۔ چنانچہ غریب پر تشدد کے بدلے غریب کو ہی کفارہ ادا کرنا تھا)۔دودھ ، دہی ، مکھن کاکاروباربھی موجودہ اقتدار کا تحفہ ہے۔ 2010 میں انہیں معلوم ہوا کہ خاندان کے پاس ایک شوگر مل کم ہے چنانچہ شکر گنج شوگر ملزلینے کا مصمم ارادہ کیا چونکہ مل معاملات بینک کے پاس تھے اور بینک ان صاحبان کے ڈسے ہوئے۔ کیش یہ صاحبان دے کر پھنسنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ روپیہ وائٹ تھا نہیں چنانچہ قرض ہی کو استعمال کرنا تھا۔منصوبہ پایہ ء تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ اس ناکامی پرہمت نہ ہاری اور گوجرہ سمندری شوگر ملز۔ منوں براداران سے 5کروڑ بیعانہ پر ہتھیا لی اور کاروباری معاملات میں ایسے زیرک کہ باقی ادائیگی 9 ماہ بعدگنا کرش کرکے دی ۔ گنا کی ٹرالیوں اقتدار کے زورِ بازو پراپنی تمام شوگر ملوں میں زبردستی ہانکناسالانہ معمول ٹھہرا ۔بڑھک ایک ہی ”بدل دیں گے پاکستان“۔
تجارت سے سیاست اور پھر سیاست سے تجارت ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ۔ارتکازِدولت کا جنون 18 کروڑ عوام کے لیے جاں لیوا بن چکا۔ اب ان اربوں ڈالراور حکومتی وسائل کے بل بوتے پر انتخابی مہم رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے تیارہو چکی ہے۔کیا ذہانت ،امانت اورصداقت کا مجموعہ بھی کبھی قوم کا مقدر بنے گا؟ ہمارے فلسفی اوردانشور کیا ایسا عمرانی اصول اور ضابطہ وضع کر پائیں گے ۔جس سے قارون کا خزانہ فتنہ وفساد بننے کی بجائے ریت کا ٹیلہ ثابت ہو ؟ہماری اسمبلی میں 6 قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی ، ن لیگ ، اے این پی، ایم کیو ایم، جے یو آئی اور ق لیگ حسنِ اتفاق اِن تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت پر کھربوں ڈالر کی ناجائز دولت ، منی لانڈرنگ ، اندرون اور بیرونِ ملک اثاثے بنانے کا الزام ہے۔ کیا دنیا میں کوئی دوسرا ایسا ملک بھی موجودہے ؟جہاں قومی قیادت کھربوں روپے کی کرپشن کے الزامات کی زد میں ہو اور اُس کا سیاسی دال دلیا بلکہ حلوہ مانڈہ بھی چل رہا ہو۔میرے عزیز ہم وطنو!اگر سیاست کو حرام مال نے نظریہ اور مستقبل دینا ہے تو پھر یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں۔امریکہ کی غلامی ،ڈرون حملے،دہشت گردی، ہندوستان کی نوکری ،دریائی پانی کی محرومی، گیس، بجلی ،تیل کی تنگی، آپ کے نصیب میں بھوک ننگ اور ذلت ہی درج کرپائے گی ۔
سوائے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ساری قابلِ ذکر جماعتوں کی سربراہی تاجر سیاستدانوں یا سیاستدان تاجروں کے پاس ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تحریکِ انصاف جیسی پاریٹوں کو چوکنا رہنے کی ضرورت نہیں ۔ عمران خان کا دیانت دار ہونا PTI کا امتیاز ہے بری شہرت ،حرام مال یا ملکی وسائل کے بل بوتے پر دولت کمانے والے کچھ لوگ شاید ادھر بھی آ گھسیں۔ چند انتہائی بدنام زمانہ اور مشکوک لوگ اپنی ساکھ بڑھانے کے لیے کروڑوں خرچ کر چکے اور پارٹی میں تفرقے کو ہوا دینے کی کوشش میں مصروف عمل بھی۔بُری شہرت کے لوگوں کا زبردستی روبہ عمل ہونا خاص ایجنڈے کی تکمیل بھی ہو سکتی ہے اور تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکالنے کی مجرمانہ کوشش بھی ۔ گندے خمیر کی ملاوٹ پورے نظریہ کو بد مزہ بھی کر سکتی ہے۔ گندی شہرت اور گول مال والوں کو تحریکِ انصاف کی اگلی صفوں میں آنے سے روکنا ہو گا۔ ان کا پچھلی صفوں میں بیٹھ کر نظریاتی افراد کے نیچے کام کرنا ہی تحریک انصاف کے لیے مفید۔ یہ خیال ان کو خودبھی کرنا ہو گا ۔ISF ، ابابیلیں، یوتھ جمع خاطر رکھیں” عمران خان کے خمیر میں گندا خمیر بالکل ہی نہیں پنپ پائے گا“۔
کیا ہم کوئی قانون بنا سکتے ہیں کہ اقتدار کے دوران بنائے گئے اثاثے اور دولت قومی خزانے میں جمع ہوسکے اور دولت مند آپ کے خوابوں کو چُرا نہ سکیں ؟ سوال اپنی جگہ موجود اور قوم کی ہنگامی ضرورت بھی ۔ عزت مآب چیف جسٹس اورمعتبر چیف الیکشن کمشنر کی توجہ چاہیے اگر دولت نے الیکشن چرایا تو ہولناکیاں ملک کے مستقبل کی منتظر۔ انتشار مقدر اورہم وطن دشمنوں کے رحم وکرم پر۔ابابیلیں ایسے لوگوں کے عزائم کو بھسم کرنے کے لیے مستعد۔”آپ دونوں“کا کردارتاریخ رقم کر سکتا ہے۔
تازہ ترین