• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دور حاضر میں جب ذرائع مواصلات اتنی ترقی کرچکے ہیں کہ دور افتادہ علاقوں میں غذائی اشیاء کی ترسیل اور سہولتوں کی فراہمی چنداں مشکل نہیں رہی، ملک کے ایک حصے کا کئی دہائیوں سے خشک سالی اور قحط کا شکار رہنا ایسا قضیہ ہے جو واضح طور پر انتظامی سطح پر پائی جانے والی سنگین غفلت کی نشان دہی کرتا ہے۔ اگرچہ صوبہ سندھ کے ضلع تھر پارکر کے المیے کا عدلیہ کی جانب سے نوٹس لیا گیا جبکہ صوبائی سطح پر بھی تھر کے مسائل سے نمٹنے کے کئی اعلانات اور دعوے کئے گئے، انہی سطور میں بارہا تھر کے مسائل کی جانب توجہ دلائی جاتی رہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہنوز تھری باشندوں کی مشکلات میں خاطر خواہ کمی نہ آئی بلکہ آئے روز وہاں سے نومولود بچوں کی غذائی قلت کے سبب اموات کی دردناک خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق سال رواں تھر میں مجموعی طور پر 486بچے جاں بحق ہوئے، جن میں ایک سے 29دن کے 317اور ایک سال کی عمر کے 94بچے شامل ہیں۔ منگل کے روز تھر میں بچوں کی اموات کے معاملے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بجا کہا کہ تھر میں کوئی غذائی قلت سے مر رہا ہے تو کوئی ناقص علاج معالجے سے۔ انہوں نے صوبائی حکومت کی تھر میں ناکام کارکردگی پر ریمارکس دیتے ہوئے یہ بھی استفسار کیا کہ کئی سالوں سے جاری غذائی قلت کے مسئلے کو اب تک حل کیوں نہیں کیا گیا اور اس ضمن میں کیا پالیسی بنائی گئی۔ عدالت نے سیکرٹری صحت کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ نہیں حل چاہئے جبکہ غذا اور پانی کے ٹرک ہنگامی بنیادوں پر بھجوانے کی ہدایت بھی کی۔ دوران سماعت عدالت میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ صحرائے تھر میں غذائی بحران کا اہم سبب کرپشن بھی ہے۔ امداد کا بیشتر حصہ خُورد برد کی نذر ہو جاتا ہے۔ تھر کا مسئلہ بلاشبہ انسانی المیہ ہے جس کا حل اب ناگزیر ہو گیا ہے اس ضمن میں محض اعلانات کی بجائے فوری طور پر عملی اقدامات کئے جانے چاہئیں جو صوبائی انتظامیہ کے متحرک ہوئے بغیر ممکن نہیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین