• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے

پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوے

آپ سب کو مبارک ہو۔ پاکستان پھر آئی ایم ایف کا در کھٹکھٹارہا ہے۔ میاں شہباز شریف حراست میں لے لئے گئے۔ آغاز ہفتہ کراچی اسٹاک ایکسچینج بہت نیچے چلی گئی۔ لوگ سمجھے کہ یہ گرفتاری کا ردّ عمل ہے۔ لیکن اسٹاکس کے ایک بڑے بروکر نے کہا کہ نہیں یہ مندی تو حکومت کی آئی ایم ایف جانے نہ جانے کی گومگو کی کیفیت کی وجہ سے ہے۔ اگلے دن جب یہ اعلان آگیا کہ ہم آئی ایم ایف جارہے ہیں تو اسٹاک مارکیٹ اچھلنے لگی۔

پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں

سر زیر بارِ منتِ درباں کئے ہوے

ہم کیسی قوم ہیں کہ قرض لینے اور قرض ملنے پر خوش ہوتے ہیں۔ آتی جاتی حکومتیں یہی خوش کن اعلانات کرتی رہی ہیں۔ مقابلہ ہوتا ہے کہ ہم نے اتنا قرضہ اتنی آسان شرائط پر لے لیا۔ پچھلی حکومت تو یہ نہیں کرسکی تھی۔ پورا نظام ایسا بنادیا گیا ہے کہ قومیں مالیاتی اداروں کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتیں۔ آزادی۔ خود مختاری صرف مفروضے ہیں۔ عالمی بینک، آئی ایم ایف، اقوام متحدہ کے مختلف ادارے یہ طے کرتے ہیں کہ آپ کو زندگی کیسے گزارنی ہے۔ آئی ایم ایف آپ سے کیا مانگے گا۔ پانی کی صحیح قیمت لگائو۔ بجلی کے دام بڑھائو۔ گیس کے نرخوں میں اضافہ کرو۔ اپنے روپے کی اوقات کا تعین کرو۔ مارکیٹ میں ڈالر 133روپے تک پہنچ گیا ہے۔ ماہرین اس کی اصل قدر 150روپے بتارہے ہیں۔ ماہرین معیشت، بینکار، صنعت کار، تاجر سب بڑے آسودہ حال ہیں۔ ڈالر خدانخواستہ 200روپے کا بھی ہوجائے تو انہیں فرق نہیں پڑے گا۔ ان کے پاس آئندہ کئی برسوں کے اخراجات کا محفوظ انتظام ہے۔ ملک میں، ہر شہر میں، ہر ملک کے کسی نہ کسی شہر میں ان کے بنگلے ہیں۔ بیرونی بینکوں میں بھی پیسے پڑے ہیں۔ آئی ایم ایف سے وصال کے بعد مہنگائی کی جو سونامی آئے گی وہ تو اس اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے گی جو غربت کی لکیر سے نیچے بھی ہے اور اوپر بھی ۔ لگی بندھی تنخواہوں سے دس بارہ افراد کا کنبہ چلایا جاتا ہے۔ اور جو روزانہ اجرت پر زندگی گزارتے ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ چند ہزار کی تنخواہ میں گھر کا کرایہ، کھانا پینا، بیماری، غمی خوشی کا کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں۔

کہیں سے اچھی خبر نہیں آرہی۔ ایک انگریزی اخبار میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کا ایک اشتہار نظر آیا ہے ۔ غالباً پہلا خوشامدی اشتہار ہے۔ صنعت کو گیس کی کم نرخوں پر فراہمی کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ وزیراعظم، وزیر خزانہ، وزیر پیٹرولیم، مشیر تجارت ٹیکسٹائل کی مسکراتی تصویروں کے ساتھ وزیر اعظم کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ آپ کی کرشماتی قیادت میں ٹیکسٹائل صنعت 30بلین ڈالر کا ہدف حاصل کرلے گی۔ جس سے موجودہ 17بلین ڈالر کا خسارہ ختم ہوجائے گا۔

اپٹما کے منہ میں گھی شکر۔ اس اشتہار سے اندازہ ہوا کہ حکومت تبدیل ہوگئی ہے اور وہ چاہےتو کچھ اچھا کام بھی کرسکتی ہے۔ یہ تو ہمارے تجزیہ کار اور ماہرین ہی بتائیں گے کہ سستی گیس سے کتنی صنعتیں اپنے پیداواری ٹارگٹ پورا کرسکیں گی۔میاں نواز شریف کے زمانے میں بھائی جان ایس ایم منیر کو ٹڈاپ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا تو ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا۔میں نے وہاں یہی کہا تھا ایس ایم منیر کی تقرری سے اندازہ ہوتا ہے کہ میاں صاحب چاہیں تو اچھے کام بھی کرسکتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل میں نے مایوسی ظاہر کی تھی کہ تفریحی ٹی وی چینلوں پر ڈراموں میں سازشی کردار ہی چھائے ہوئے ہیں۔ ایماندار اور راہ راست پر چلنے والے سازشوں کا شکار ہورہے ہیں۔ سازشی بے نقاب نہیں ہورہے ہیں۔ اب ایک ڈیڑھ ہفتے سے سازشی کردار اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ شوہروں اور بیویوں کے درمیان غلط فہمیاں ختم ہورہی ہیں۔ اپنے حریفوں کو اغوا کرکے تشدد کرنے والے معذور ہورہے ہیں۔ اپنے گناہوں کا اعتراف کررہے ہیں۔ میں اسے بھی اچھا شگون سمجھتا ہوں ۔ ادھر جو حقیقی زندگی میں ہم دیکھتے ہیںکہ قاتل دندناتے پھر رہے ہیں۔ سرکاری خزانہ لوٹنے والے بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔ اب یقیناً ان پر بھی برا وقت آنے والا ہے۔بقول فواد چوہدری، بڑے ڈاکو پکڑے جانے والے ہیں۔

پُر امید ہونے میں کیا حرج ہے۔

کیا یہ ہمارے لئے طمانیت کا باعث نہیں ہونا چاہئے کہ اس وقت سب ادارے فعال ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس ہورہے ہیں ۔ سینیٹ میں اہم مسائل پر بحث ہورہی ہے۔ صوبائی اسمبلیوں میں دھواں دھار تقریریں سننے میں آرہی ہیں۔ عدلیہ سے کیسے کیسے ولولہ انگیز فیصلے‘ جریدہ عالم پر ثبت ہورہے ہیں۔ مسلّح افواج کے غوری میزائل کے تجربے کامیاب جارہے ہیں۔ اس سے زیادہ آئین پر مکمل عملدرآمد کیسا ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام اپنی پوری جلوہ آرائیوں سمیت آگے بڑھ رہا ہے۔

لیکن وہ غالب نے کہا ہے :

مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

ایک واضح روڈ میپ نہ ہونے کی وجہ سے خود حکمراں بھی بد حواس رہتے ہیں اور عام طبقے بھی۔ گرمی ختم ہورہی ہے۔ احتجاج کے لئے سازگار موسم آرہے ہیں۔ تیاریاں ہورہی ہیں۔ اپوزیشن نیب کے سخت رویے کے خلاف متحد ہورہی ہے۔ میڈیا میں بھی بے چینی ہے۔ چہ میگوئیاں، سرگوشیاں، قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں۔ مالی بحران ڈالر کی سرکشی نے بھی پیدا کیا ہے۔ سرکاری اشتہارات کے بلوں کی عدم ادائیگی۔ معیشت ڈانواڈول ہے تو اس کے اثرات بھی میڈیا پر مرتّب ہورہے ہیں۔ نظیری نیشا پوری یاد آرہے ہیں۔

بزیر شاخ گل افعی گزیدہ بلبل را

نواگران نخوردہ گزند را چہ خبر

گلاب کی ٹہنی کے نیچے ایک بڑے سانپ نے بلبل کو ڈس لیا ہے۔ وہ مغنی۔ جنہیں کوئی گزند نہیں پہنچی ہے انہیں کیا خبر ہے۔

بلبل تو اس حادثے کی وجہ سے خاموش ہے۔ اپنے گیت نہیں الاپ سکتی۔ لیکن دوسرے گلوکار جنہیں کوئی اذیت نہیں پہنچی وہ تو نغمہ سرائی میں مصروف ہیں۔

قوم ہو یا میڈیا۔ ابھی تو بٹا ہوا ہے۔ درد کی شدت محسوس نہیں کرتا۔ نظیری ہی کا ایک اور شعر ہے :

گریزداز صف ماہر کہ مرد غوغا نیست

کسے کہ کشتہ نہ شداز قبیلۂ ما نیست

ہماری صفوں سے دور ہی رہتا ہے جو جراتمند نہیں ہے جو مارا نہ جائے وہ ہمارے قبیلے سے نہیں ہے۔

اسی شعر سے متعلق علامہ اقبال نے اس تحسین کا اظہار کیا تھا۔

بملک جم نہ دہم مصرع نظیری را

کسے کہ کشتہ نہ شداز قبیلۂ ما نیست

(میں بادشاہ وقت کی سلطنت کے عوض بھی نظیری کا یہ مصرع نہیں دوں گا کہ جو مارا نہ جائے وہ ہمارے قبیلے سے نہیں ہے) اب دیکھیں قبیلے والے کیا فیصلے کرتے ہیں۔

تازہ ترین