• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انڈین مووی ’’تھر ی ایڈیٹس‘‘میری طرح بہت سے لوگوں کو پسند آئی ہو گی۔ اس کے تینوں کردار بونگیاں بھی مارتے ہیں لیکن اُن میں ایک نوع کی معصومیت ہے۔جن دنوں ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن جیت کر امریکی صدارت کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے ہمارے لیے یہ ایک ایسی دلچسپ تبدیلی تھی جس کا بڑا باعث ہماری مسلم شدت پسندی کا خوف تھا جسے امریکن Islamic Terrorism کا نام دیتے ہیں۔انہی دنوں ہم نے جنگ میں ’’سیاست کے تھری ایڈیٹس ‘‘کے عنوان سے ایک کالم لکھتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ وزیراعظم نریندر مودی اور ایک پاکستانی سیانے سیاستدان نما لیڈر کا تذکرہ بھی چھیڑا تھا۔آج پھر حالات نے مجبور کیا ہے کہ اس کا ایک نیا زاویہ پیش کیا جائے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ میں بہت سی خوبیوں کے باوجود کئی خوفناک خامیاں بھی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ خود پر کنٹرول نہیں رکھ پاتے بالخصوص عوام یا میڈیا کے سامنے اظہار خیال کرتے ہوئے جو منہ میں آتا ہے جڑ دیتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے حال ہی میں ہمارے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے متعلق جو درفنطنی چھوڑی ہے اس کا ہمیں بہت رنج اور دکھ ہے۔۔سعودی کنگ صرف سعودی عرب کا نہیں بلکہ دنیائے اسلام کے کروڑوں مسلمانوں کا محبوب رہنما کہلاتا ہے۔اُن کے متعلق اتنی بڑی جسارت یا زبان درازی ناقابلِ قبول ہے۔ اگر صدر ٹرمپ اردو زبان جانتے تو ضرور اقبال کا یہ شعر پڑھتے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

یہ کہانی تو سب کو معلوم ہے کہ جب صدام حسین نے کویت پر دھاوا بولتے ہوئے اُسے اپنا انیسواں صوبہ قرار دے دیا تھا اُس وقت اگر امریکی مدد کو نہ آتے تو شاید اُس کا اگلا ٹارگٹ سعودی عرب ہوتا۔انہی دنوں کی بات ہے جب امریکی فورسز کی حجاز مقدس میں تعیناتی ہوئی تو بن لادن نے اس کے خلاف طوفان کھڑا کرتے ہوئے خود کش حملوں کی دھمکیوں پر عملدرآمد شروع کر دیا تھا۔بہت خطرناک حالات تھے جو ہنوز پوری طرح ٹلے نہیں ہیں۔ بات کتنی بھی مبنی پر حقائق ہو اسے کہنے کا ایک ڈھنگ، اسلوب یا موقع محل ہوتا ہے یہ کیاکہ جو منہ میں آئی ہانک دی ایسے غیر ذمہ دار شخص کے ہاتھوں تو کسی عزت دار کی سفید پوشی کا بھرم تک قائم نہیں رہ سکتا۔

مشرق وسطیٰ کی سنگین صورتحال سب جانتے ہیں۔ شام میں یہ پراکسی وار اپنی انتہاؤں کو چھو چکی ہے، عراق میں جڑیں کاٹ رہی ہے اور یمن کی صورتحال تو اتنی سنگین ہے۔ مقامات مقدسہ کی نگرانی امریکی پیٹریاٹ کر رہے ہیں۔ اتنی بڑی سعودی معیشت آخر کس کس کا بوجھ اٹھائے گی؟ شاہی خاندان کا خلفشار اب کوئی راز نہیں۔

اس سب سے بڑھ کر خود عرب قدامت پرست سوسائٹی کے باعث ان دنوں پرنس محمد بن سلمان گویا تنے ہوئے رسے پر چل رہے ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ مہم جوئی انہیں اتاترک بھی بنا سکتی ہے اور انوار السادات بھی۔ ایک طرف ٹرمپ انہیں اپنا دوست قرار دیتے ہیں دوسری طرف وہ ان کے والد محترم کے متعلق جو کچھ ہانک رہے ہیں کیا اس کو دوستی کہتے ہیں ؟ہماری زبان میں تو اسے ’’یارمار‘‘کہتے ہیں۔

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو

ٹرمپ جیسی اپروچ رکھنے والے تمام دوستوں کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کے حالات کی سنگینی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے درویش جیسا جمہوریت پر ایمان رکھنے والا یہ عرض کرتا ہے کہ موجودہ حالات میں عرب بادشاہت کا متبادل بدترین انارکی اور اوپن ٹیررازم کے سوا کچھ نہیں انہیں ہٹا کر کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ بن لادن کے پیروکار یا القاعدہ والے اوپر آجائیں.....ٹرمپ صاحب براہ کرم ذرا سوچ کر بولا کریں۔

ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری ہمسائیگی میں بھی ایک ٹرمپ صاحب ہیں جنہیں ہم سیکنڈ’’سیانے‘‘خیال کرتے ہیں باتیں تو ان کی کرنسی مارکہ سے لے کر گاؤماتا تک ایک سے ایک نرالی ہیں مگر یہاں ہم محض ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔70کے اوائل میں جو کچھ مشرقی پاکستان میں ہوااس پر دنیا میں کونسا ایسا دردمند انسان ہوگا جس کی آنکھوں میں آنسو نہیں ابل پڑے ہونگے۔جسے شک ہے وہ حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ پڑھ لے پھر بھی کوئی کسر رہ جائے تو سابق آئی جی سردار محمد چوہدری کی Ultimate Crimeکا مطالعہ کر لے تو جان لے گا کہ’’اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں‘‘۔ اپنوں نے جس طرح نشیمن پر بجلیاں گرائیں اور غیروں نے آکر جس طرح تھاما اس پر یقینا ًبحث ہو سکتی ہے ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی مگر ہمارا کنسرن یہ ہے کہ نریندر مودی صاحب نے عین ڈھاکا پہنچ کر محترمہ حسینہ بی بی کی موجودگی میں جو غیر ذمہ دارانہ زبان استعمال کی وہ عقل و دانش کی کس کسوٹی پر پوری اترتی ہے؟ اس نوع کی زبان تو اندرا گاندھی نے بھی کبھی استعمال نہیں کی جو اس سارے پس منظر میں خود موجود تھیں۔اس سے آپ نے الحمدللہ پاکستان کا تو کچھ نہیں بگاڑا البتہ اپنا چہرہ ضرور خراب کیا ایک حوالے سے اپنی جگ ہنسائی کروائی۔

تیسرے سیانے کے متعلق ہم کیا عرض کریں ان کی ’’حکمتیں ‘‘بیان کرنے کے لیے صرف ایک کالم نہیں پوری کتاب درکار ہے۔اگر چہ کتاب بھی بیکار ہے جو قبل از وقت آکر ٹوکری میں جا چکی ہے البتہ سینہ گزٹ میں جو کچھ جمع ہو رہا ہے وہ ایک روز ضرور منظرِ عام پر آئے گا۔ اس سیانے کی رخصتی پر کھلیانوں میں جو کچھ بچے گا سمجھنے والوں کے لیے اس کی چند جھلکیاں ہی کافی ہونگی۔اپنے وزیراعظم کی طرح ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ بڑی سیٹ پر چھوٹا آدمی بیٹھا ہے مگر ہمارا معاملہ اس سے کچھ سوا ہے البتہ جملہ معترضہ یہ ہے کہ زندگی میں کبھی کسی کو اس کے پیشے کا حوالہ دیتے ہوئے کمتر نہیں کہنا چاہیے یہ ازخود پر لے درجے کا چھوٹا پن ہے۔ہمارے پنجاب میں لاکھوں غریب اور بے کس انسان طویل دہائیوں سے اس نوع کی منافرت بھگت رہے ہیں جن کو محض پیشہ ورانہ محنت مزدوری کے باعث ’’کمی ‘‘کا لفظ نسل در نسل بھگتا پڑ رہا ہے۔ جاگیر یا زمیندار سوسائٹی انہیں نسلی طور پر حقیر یا کمتر خیال کرتی چلی آرہی ہے۔اکیسویں صدی میں اس نوع کی چھوٹی ظالمانہ سوچ انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔تمام انسان بلا تمیز رنگ،نسل یا جنس قابلِ احترام ہے۔اگر کوئی غریب محنت کش ہے جس کی ہتھیلیاںمزدوری نے سخت کر دی ہیں تو وہ زیادہ قابلِ احترام ہے اتنا زیادہ کہ اُسے حبیب اللہ کہا گیا ہے۔ ہمارے تھرڈ سیانے کو بھی اس حوالے سے اور دیگر کئی حوالوں سے اپنی زبان پر قابو پانے کی نیٹ پریکٹس کرنی چاہیے۔۔ہمارے ہادی برحقؐ نے فرمایا ہے کہ جو مجھے اپنی زبان اور اپنے نفس کی ضمانت دے ،میں اُسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔امید ہے ہمار ا سیانا نان ایشو ز کو چھوڑ کر وطنِ عزیز کے اصل ایشوز پر توجہ مرکوز فرمائے گا۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین