• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رانا غلام قادر

وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو ڈاکو اور لٹیرے کے طعنے اور سینیٹر مشاہد اللہ خان کو پی آئی اے میں خاندان کو بھرتی کرانے اور لوڈر کہنے سے پارلیمانی فضا میں پیدا ہونے والی تلخی ابھی برقرار تھی کہ نیب نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو گرفتار کر لیا۔ شہباز شریف کی گرفتاری سے مجموعی طور پر قومی سیاست کی فضا کشیدہ ہوگئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ملک 90 کی دہائی میں واپس جارہا ہے جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اس سیاسی مخاصمت کا ڈراپ سین میثاق جمہوریت پر دستخط سے ہوا تھا۔ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کرپشن کے خاتمے کے نعرہ سے لڑی۔ انہوں نے آصف زرداری اور نواز شریف دونوں پر کرپشن کے الزامات لگائے۔ اب عمران خان وزیراعظم بن چکے ہیں۔ ان کی ٹیم میں دو طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ ہیں۔ ایک گروپ شاہ محمود قریشی کی طرح کے بالغ نظر اور سنجیدہ سیاستدانوں پر مشتمل ہے جن کی رائے یہ ہے کہ انتقامی سیاست سے باہر نکلا جائے اور حکومت چلانے کیلئے اپوزیشن سے افہام وتفہیم سے اور بردباری سے ڈیل کیا جائے اور اپنے اہداف کے حصول پر توجہ دی جائے۔ دوسرا گروپ وزیر اطلاعات فواد چوہدری جیسے لوگوں کا ہے جن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ چونکہ عوام نے ہمیں کرپشن کے خاتمے کے نعرے پر ووٹ دیا ہے لہذا ہمیں اس بیانیہ کو اب بھی آگے بڑھانا چاہئے اور اپوزیشن خواہ وہ مسلم لیگ (ن) ہو، پیپلز پارٹی یا جے یو ائی (ف) ان سے کوئی رعایت نہیں برتنی چاہئے۔ فی الحال عقابی سیاسی کارکنوں کا بیانیہ چل رہا ہے وہ سابق حکومتوں پر الزام تراشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بلکہ بسا اوقات یہ موقع خود پیدا کرتے ہیں۔ 

اس کا نتیجہ بہرحال تلخی کی صورت میں نکلے گا اور تلخی جب بڑھتی ہے تو ذاتی دشمنی میں تبدیل ہوجاتی ہے جو ملکی سیاست اور قومی یکجہتی کیئلے بہرحال نقصان دہ ہوگی۔ بہتر اور موزوں راستہ یہ ہے کہ اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اپنایا جائے۔ کرپشن کے کیسز کو آگے بڑھایا جائے مگر زبانی فائرنگ کم کی جائے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سیاست میں ماحول کو سازگار رکھنا بہرحال حکومت کی ذمہ داری ہے اگر حکومتی وزیر پٹرول کی بوتل اور ماچس کی ڈبی لے کر نکلیں گے تو اپوزیشن کے پاس تو تنقید کے سوا ہوتا ہی کچھ نہیں ہے اس سے حکومت اپنے منشور اور اہداف کے حصول سے ہٹ کر لایعنی اور بے مقصد لڑائی میں اپنے آپ کو الجھا لے گی۔ یہ وزیراعظم عمران خان کا امتحان ہے کہ وہ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائر فائٹنگ کریں۔کیونکہ سیاسی درجہ حرات بڑھنے سے حالات خراب بھی ہوسکتے ہیں ۔اپوزیشن نے شہباز شریف کی گرفتاری پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا ہے جو یقیناً ہنگامہ خیز ہوگا۔ پیپلز پارٹی نے سینٹ الیکشن، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب اور سپیکر وڈپٹی سپیکر کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) سے فاصلہ رکھا تھا جس کا یقیناً پی ٹی آئی کو فائدہ ہوا مگر اب منی لانڈرنگ کیس میں رعایت نہ ملنے سے پیپلز پارٹی کا رویہ بھی جارحانہ ہونے لگا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں فاصلے کم ہونے لگے ہیں۔ قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ دونوں جماعتوں نے ضمنی الیکشن میں تعاون پر اتفاق کیا اب شہباز شریف کی گرفتاری پر پیپلز پارٹی نے شدید تنقید کی ہے اور مسلم لیگ (ن) کی ہمرکاب دکھائی دیتی ہے۔ شہباز شریف کی گرفتاری کو ضمنی الیکشن سے بھی جوڑا جارہا ہے اور یقیناً اس گرفتاری کے اثرات اتوار کو ہونے والے ضمنی الیکشن پر پڑیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کو ہمدردی کا ووٹ بھی مل سکتا ہے اور اس کے ووٹر کا مورال گر بھی سکتا ہے۔ 

الیکشن پر گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات بھی پڑیں گے۔ بے شک عمران خان انتخابی مہم میں یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ہم مزید قرضے نہیں لیں گے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف سے قرضے کیلئے مذاکرات شروع کر دیئے ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کے مطالبہ پر کیا گیا ہے یہ آئی ایم ایف کی پیشگی شرط تھی۔ اب آئی ایم ایف سبسڈیز کو کم کرنے اور روپے کی قدر میں کمی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ بجلی کے ٹیرف میں ضمنی الیکشن کے بعد مزید اضافے کی تجویز ہے۔ آئی ایم ایف کے سامنے گٹھنے ٹیکنے سے پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ متاثر ہوگی بالخصوص وزیراعظم عمران خان جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ میں وہ بات نہیں کرتا جس پر عمل نہ کروں۔ سعودی عرب سے بھی نقد امداد کے دعوے کی عملی صورت کم ازکم اب تک سامنے نہیں آئی۔ صرف گوادر میں آئل ریفائنری پراجیکٹ کیلئے سعودی حکومت سے ایم او یو پر اتفاق ہوا ہے جس پر دستخط کیلئے سعودی وزیر توانائی اس ماہ کے آخر میں پاکستان آئیں گے۔ پاکستان کو اس وقت قرضوں کی ادائیگی کیلئے نقد ڈالرز کی ضرورت ہے۔ بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے پر کام شروع ہوا ہے مگر اس عمل میں قانونی پیچیدگیاں اتنی ہیں کہ اس خواب کی تعبیر ملنے میں بہت وقت لگے گا۔ بات اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری کی ہو رہی تھی۔ جس پر حکومتی موقف یہ سامنے آیا ہے کہ شہباز شریف کی گرفتاری میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ نیب ایک خودمختار ادارہ ہے۔ یہ کیس پہلے سے چل رہا تھا۔ حکومتی موقف اپنی جگہ لیکن جس دن قومی اسمبلی میں تلخی ہوئی تھی اس کے بعد کابینہ کی بریفنگ میں وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا اگلے ایک دو ہفتوں میں جب اہم گرفتاریاں ہوں گی تو اپوزیشن کو مزید تنقید کرنا پڑے گی۔ 

اگر نیب خودمختار ادارہ ہے تو حکومتی ترجمان گرفتاریوں کی پیش گوئیاں کس حیثیت میں کر رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بھی کہا ہے کہ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ان وزراء کے بیانات اور بعض معروضی حالات کی وجہ سے بہرحال نیب کی غیر جانبدارانہ حیثیت یا ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات اور ڈی جی نیب راولپنڈی کی نیب کورٹ کے ججز سے ملاقات سے منفی تاثر پیدا ہوا مگر اس سے بڑھ کر یہ دلیل دی جارہی ہے کہ اگر انکوائری کی سطح پر شہباز شریف کو گرفتار کیا جاسکتا ہے تو پھر پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان اور پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان کو اس سے مستثنیٰ کیوں کیا گیا۔ سابق وزرائے اعظم راجہ پرویز اشرف اور یوسف رصا گیلانی بھی گرفتار نہیں کئے گئے۔ نیب کو صوابدیدی اختیارات کی بجائے ایک ایس او پی پر چلنا چاہئے اور کرپشن میں ملوث تمام سیاستدانوں سے بلاامتیاز سلوک کرنا چاہئے خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وزیراعظم عمران خان صرف 4 ووٹوں کی اکثریت سے یعنی 176 ووٹ لے کر وزیراعظم بنے تھے۔ وہ بی این پی مینگل اور ایم کیو ایم جیسے اتحادیوں کی بیساکھیوں کے سہارے حکومت کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت بہرحال تجربہ کار ہے اور وہ اکٹھے ہوکر چلے تو حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ 

پنجاب میں بھی یہی صورتحال ہے اور پنجاب میں تو وزیراعلیٰ کا انتخاب بھی ناقابل فہم ہے۔ سب سے بڑے صوبے کیلئے عثمان بزدار کا انتخاب جنہیں کوئی انتظامی تجربہ نہیں ہے اس پر خود حکومتی پارٹی کے لوگوں کے تحفظات ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اپنے منشور پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں مگر ملک کو آگے لے جانے، ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کیلئے قومی وحدت اور یکجہتی قائم رکھنے اور کام کرنے کیلئے بے مقصد تنازعات سے بچنے کیلئے سیاسی ماحول کو بہتر بنانے میں پہل کریں۔ پی ٹی آئی کو یقین آجانا چاہئے کہ وہ اب اپوزیشن میں نہیں بلکہ حکومت میں ہے اس لئے جارحانہ روش ترک کی جائے۔ تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا جائے۔ الزامات بھری پریس کانفرنس اور پارلیمنٹ میں لگانے کی بجائے عدالتوں میں کیسز چلائے جائیں اور پریس کانفرنس صرف اپنی کارکردگی پر کی جائے تاکہ آپ کا ووٹر مطمئن ہوکہ حکومت انہیں ریلیف دینے کیلئے کام کر رہی ہے الزامات کی سیاست کو اگلے انتخابات تک موخر کردیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین