• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب سے تقریباً 15برس قبل پاکستان کی گولڈن جوبلی کے سلسلے میں میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کے زیراہتمام ”استحکام پاکستان اور ٹیکس دہندگان کا کردار“ کے موضوع پر ایک قومی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ ہندوستان اپنی قومی آمدنی کا 20فیصد ٹیکسوں کے ذریعے وصول کرتا ہے جبکہ پاکستان صرف12فیصد۔ اگر پاکستان بھی20فیصد وصول کرتا تو جو اضافی رقوم حاصل ہوتیں ان سے کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کتنے لوگوں کو روزگار مل سکتا تھا اور کتنے ترقیاتی کام ہو سکتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ان کا عقیدہ ہے کہ اگر ہم ٹیکسوں کا نظام درست کر لیں تو نئے ٹیکس لگائے بغیر پرانے ٹیکس ہی ہمیں دو گنا زیادہ آمدنی دے سکتے ہیں لہٰذا غریب پر ہر سال نئے ٹیکس لگانے کا کوئی جواز نہیں بنتا (جنگ 26/اگست1997ء) جون2003 ء میں فوجی حکومت کے اکنامک منیجر نے تسلیم کیا تھا کہ اگر ٹیکس چوری روک دی جائے تو جنرل سیلز ٹیکس کی شرح15فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کرنے اور ہر قسم کے سرچارج ختم کرنے کے باوجود ٹیکسوں کی وصولی کا تناسب بڑھے گا۔ 1997-98ء میں جنرل سیلز ٹیکس کی شرح12.5 فیصد تھی جو بڑھا کر اب 16فیصد کر دی گئی ہے مگر ٹیکس اور مجموعی ملکی پیداوار کا تناسب اس مدت میں 13.2 فیصد سے کم ہو کر 10فیصد سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ 1997-98 ء میں عوام سے سیلز ٹیکس کی مد میں54/ارب روپے وصول کئے گئے تھے جبکہ 2011-12ء میں عوام کو نچوڑ کر سیلز ٹیکس کے مد میں 805/ارب روپے وصول کئے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں گزشتہ4برسوں میں ٹیکسوں کی وصولی کے اہداف حاصل نہیں ہو سکے اور موجودہ مالی سال میں بھی ہدف حاصل نہیں ہو گا۔
وطن عزیز میں ٹیکسوں کی بڑے پیمانے پر چوری ہونے دینے، طاقتور اور مالدار طبقوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دیتے چلے جائے،کریشن، نااہلی، بدانتظامی اور میرٹ پر تقرریاں نہ ہونے سے حکومتی شعبے کے کچھ اداروں کے نقصانات کا حجم بڑھتے چلے جائے اور دہشت کی جنگ سے زبردست نقصانات اٹھاتے چلے جانے کی وجہ سے بجٹ خسارہ سالانہ تخمینوں سے کہیں زیادہ رہا ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کیلئے حکومت قرضے لیتی چلی جا رہی ہے۔ نتیجتاً ان قرضوں پر سود کی مد میں درکار رقم بڑھ رہی ہے جو پھر بجٹ خسارے کے بڑھنے کا سبب بن رہی ہے اس کو پورا کرنے کیلئے حکومت کو مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ اس طرح پاکستان کو شیطانی چکر میں پھنسا دیا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ یکم جولائی 2008ء سے 30جون2013ء تک کے 5برسوں میں مجموعی بجٹ خسارے کا حجم چھ ہزار ارب روپے سے زائد رہے گا۔ یہی نہیں، تجارتی خسارے کا حجم سال بہ سال اونچا رہنے، بیرونی ذرائع سے آنے والے سرمائے کے حجم میں تیزی سے کمی ہونے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے درکار رقم کے تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے گزشتہ 17ماہ میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 5800ملین ڈالر کی کمی ہو چکی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں مزید کمی ہو گی، افراط زر بڑھے گا اور بیرونی قرضوں کی پاکستان کی ادائیگی کی صلاحیت مزید کمزور ہو گی۔ پاکستان اگلے مالی سال میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی اپنے ذرائع سے نہیں کر پائے گا۔ اس بات کی نشاندہی پاکستان میں سب سے پہلے ہم نے انہی کالموں میں2008ء میں ہی کر دی تھی۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ موجودہ حکومت اور اس وقت کے وزیر خزانہ نے متعدد دروغ گوئیاں کر کے امریکی ایجنڈے کے تحت پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسوایا۔ شوکت ترین نے مشیر اور وزیر خزانہ کی حیثیت سے متعدد مرتبہ کہا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ اس لئے لیا جا رہا ہے کہ فرینڈز آف پاکستان گروپ سے رقوم ملنے میں تاخیر ہو رہی ہے حالانکہ انہیں اور حکومت کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس گروپ نے پاکستان کو رقوم دینے کا کوئی وعدہ کیا ہی نہیں ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک کی وڈیرہ شاہی کلچر پر مبنی پالیسیوں اور اقدامات، بینکاری و ٹیکسوں کا استحصالی نظام، اعلیٰ عدلیہ کا مالیاتی معاملات پر مبنی مقدمات کو پس پشت ڈالنے اور کرپشن میں اضافہ ہونے سے ملک میں غربت و بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور عوام کی تکالیف اور محرومیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔
عوام یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ٹیکسوں کی مد میں جو رقوم وہ حکومت کو ادا کرتے ہیں وہ ان کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کی جارہی ہیں۔ ٹیکس ایمنٹی اسکیموں کے وقتاً فوقتاً اجرا سے ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنے والوں میں بددلی پھیل رہی ہے اور ٹیکس چوری اور ٹیکسوں کے سالانہ گوشوارے داخل نہ کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وطن عزیز میں ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام کے خلاف خاموش بغاوت شروع ہو چکی ہے۔ حکومت مزید دو ٹیکس ایمنٹی اسکیموں کا اجرا کرنے کے لئے پرتول رہی ہے جس کے تحت معمولی رقم کی ادائیگی پر ٹیکس چوری کرنے والوں اور اسمگلنگ، کرپشن اور بھتہ خوری وغیرہ کے ذریعے بے تحاشہ دولت اکٹھی کرنے والوں کے اثاثے قانونی اور جائز تصور کئے جائیں گے حالانکہ مروجہ قوانین کے تحت ان اثاثوں سے دوہزار ارب روپے سے زائد کی رقوم آسانی سے وصول کی جا سکتی ہیں۔ اگر استحصالی معاشی پالیسیاں برقرار رہیں اور مالدار و بدعنوان عناصر کو ناجائز طریقوں سے نوازا جاتا رہا تو اس خاموش بغاوت کے شعلے بھڑک سکتے ہیں جو سول نافرمانی اور پھر خدانخواستہ خانہ جنگی کا روپ بھی دھار سکتی ہے۔
پاکستان کی معیشت خصوصاً بیرونی شعبے کو سنگین چیلنجز اور خطرات کا سامنا ہے۔ ملک میں دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں اور خود امریکہ 338ڈرون حملے کر کے پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے جبکہ اس نے اتحادی امدادی فنڈ کی مد میں پاکستان کے کئی ارب ڈالر کے بل مسترد کر دیئے ہیں۔ پاکستان قرضوں پر انحصار اس خطرناک حد تک بڑھا چکا ہے کہ سیکورٹی سے منسلک اخراجات اور قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات مجموعی اخراجات کا68فیصد اور جاری اخراجات کا 85فیصد ہو گئے ہیں۔ اندازہ ہے کہ موجودہ مالی سال میں حکومت کو بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور قرضوں کی ادائیگی کی مد میں تقریباً7000/ارب روپے درکار ہوں گے۔ جن کا خاصہ بڑا حصہ زرمبادلہ کی شکل میں ہو گا۔اگلے برس پاکستان کو اپنے قرضوں کی بروقت ادائیگی کیلئے ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے کی ضرورت پڑے گی جو امریکی حمایت کے بغیر مل ہی نہیں سکتا۔ امریکہ یہ سفارش کرنے کے لئے پاکستان سے دہشت گردی کی جنگ میں ”مزید اور کرو“ کا مطالبہ پورا کرنے پر اصرار کرے گا جبکہ ڈرون حملے بھی جاری رہیں گے۔ امریکہ اب تک پاکستان پر 338ڈرون حملے کر چکا ہے۔ آئی ایم ایف بھی ایسی شرائط پورا کرنے کا مطالبہ کرے گا جو عوام کی زندگی پر مزید منفی اثرات مرتب کریں گی اور معیشت کیلئے تباہ کن ہوں گے۔ اس صورت حال سے بچنے کیلئے کچھ انقلابی اقدامات اٹھانا ہوں گے جن کا خاکہ ہم انہی کالموں میں وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہے ہیں۔ اگر ان پر عملدرآمد کے بجائے آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لیا گیا تو یہ ایک قومی المیہ ہو گا۔
تازہ ترین