• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر ملک اور ہر عہد کی کہانی جدا جدا ہے، مگر ہمارے معاشرے میں بائولے افراد کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ لوگ تاریخ سے نابلد اور سیاسی حرکیات سے یکسر بےخبر ہیں۔ ہر معاملے میں کیڑے ڈالنا اُن کا بنیادی نصب العین ہے۔ یہی دیکھیے کہ عمران خان کو اقتدار میں آئے ابھی فقط پچاس دن ہوئے ہیں، مگر اُن کا محاسبہ اِس طرح کیا جا رہا ہے جیسے اُنہوں نے پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر لی ہو۔ ایک طرف سے آواز آتی ہے کہ تمہارے وہ وعدے کیا ہوئے جو تم نے قوم سے کیے تھے اور قسم کھائی تھی کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے اور اُن کے اقتدار میں آتے ہی تارکینِ وطن ڈالروں کی بارش کر دیں گے۔ دوسری طرف سے آواز آتی ہے کہ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ آٹھ ہزار ارب کا ٹیکس جمع کریں گے، اُن کے دورِ حکومت میں تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا، مگر آج سب کچھ اُن یقین دہانیوں کے خلاف ہو رہا ہے۔ تیسری طرف سے آواز آتی ہے کہ آپ نے انتخابات میں کامیابی کے فوراً بعد تقریر میں کہا تھا کہ میں انتقام کی سیاست کے بجائے سب کو ساتھ لے کر چلوں گا، لیکن اب ہر اقدام سے انتقام اور خودنمائی کی بُو آ رہی ہے۔ یہ آواز چاروں طرف سے سنائی دے رہی ہے کہ تحریکِ انصاف کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام ہے نہ باصلاحیت اور دیانت دار ٹیم جس کے باعث باربار یوٹرن لیے جا رہے ہیں۔

یہ لوگ جو بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہے ہیں، ان میں سے بیشتر عقل سے پیدل ہیں۔ بھلا پچاس دنوں میں ہتھیلی پر سرسوں کیونکر جم سکتی ہے اور پختہ عادتیں کیونکر چشمِ زدن میں بدلی جا سکتی ہیں۔ یہ بائولے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ اپوزیشن اور حکومت کے کردار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اپوزیشن میں آپ حکومت پر دباؤ قائم رکھنے کے لیے بےرحم تنقید کرتے اور عوام کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے اُنہیں سہانے خواب دکھاتے ہیں جبکہ حکومت میں ایک ایک قدم احتیاط سے اُٹھانا پڑتا اور بڑے تحمل سے کام لینا ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عمران خان حکومت میں آنے کے بعد بڑی حد تک تبدیل ہو گئے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو وعدوں اور دعووں کے شکنجے سے آزاد کر لیا۔ اب اپوزیشن اُن پر پہلو بدل بدل کر تیر چلا رہی ہے اور یہ ثابت کر رہی ہے کہ اُن کا اخلاقی دیوالیہ نکل چکا ہے اور حالات اُن کے قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ چونکہ زیادہ بائولے افراد پر مشتمل ہے، اس لیے اس کے وار خالی جا رہے ہیں۔ یہ نادان اِس حقیقت کا سراغ ہی نہیں لگا سکے کہ حکومت کی اصل طاقت کیا ہے اور وہ اِس کا تحفظ کن ہتھیاروں سے کر رہی ہے۔

بلاشبہ بشریٰ بی بی سے شادی نے عمران خان کی فیروزمندی کی راہیں کشادہ کیں۔ بی بی صاحبہ نے پیش گوئی کر دی تھی کہ خان صاحب کو وزیراعظم بننے سے کوئی طاقت نہیں روک سکے گی۔ تب کائنات کی ساری طاقتیں تحریکِ انصاف کو اقتدار میں لانے کے لیے فعال ہو گئی تھیں، مگر مسلم لیگ نون سخت جاں ثابت ہوئی اور ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ووٹر کشاں کشاں پولنگ اسٹیشن تک پہنچے۔ اب اِسی ’جرم‘ کا کڑا اِحتساب ہو رہا ہے اور ایک عمومی تاثر کے مطابق نیب کو ایک انتظامی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ عمران خان اپنے جیالوں میں مقبول رہنے کے لیے کرپشن کے نام پر اپنے مخالف سیاست دانوں کو تختۂ مشق بناتے اور یہ نعرہ بلند کرتے رہیں گے کہ کرپٹ عناصر اُن کی پکڑ سے بچ نہیں پائیں گے۔ یہ بائولے لوگ یہ بھی نہیں سمجھ پا رہے کہ اِس نعرے کے ذریعے تمام سیاسی طاقتوں کی بیخ کنی مقصود ہے جو مانگی تانگی بیساکھیوں پر چلنے والی حکومت کے لیے چیلنج بن سکتی ہیں۔

میں نے اخبار میں پڑھا کہ عظیم خاتون جسٹس (ر) ناصرہ جاوید کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے جب کسی صحافی نے اُن سے ولید اقبال کے بارے میں پوچھا۔ اُنہوں نے بڑے باوقار لہجے میں جواب دیا کہ اُس کی پارٹی نے اُس کی قربانی اور جاں فشانی کی قدر نہیں کی۔ ولید اقبال کا قصور یہ تھا کہ اسے انتخابات جیتنے کے لیے وافر وسائل میسر نہیں تھے، چنانچہ اس کی شب وروز کی سیاسی ریاضت اور سالہا سال کی وفا شعاری اکارت گئی۔ اُن کے مقابلے میں ہمایوں اختر خاں انتخابات سے ذرا پہلے تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے۔ اُن کے پاس دولت کی ریل پیل کے ساتھ انتخابات جیتنے کی مہارت بھی ہے، لہٰذا وہ ٹکٹ سے نوازے گئے۔ عمران خان نے گھسے پٹے اصولوں کے ساتھ بندھے رہنے کے بجائے غیرمعمولی سیاسی فہم و فراست کا ثبوت دیا ہے کہ وہ اقتدار میں رہنے کے لیے اپنے جاں نثاروں کو قربانی کا بکرا بناتے اور موقع پرستوں کو سینے سے لگاتے رہیں گے۔ یہ بائولا طبقہ اِس قدر کندذہن اور عصری تقاضوں سے اِس قدر بےبہرہ ہے کہ اس نے اس پیغام کا مفہوم بھی ٹھیک طور پر نہیں سمجھا کہ ’ہماری پشت پر کون کھڑا ہے؟‘

اِس پیغام کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نیب بہت زیادہ طاقتور ہو گیا ہے اور اس نے قومی شخصیتوں، سیاسی رہنماؤں اور علم کی دولت سے مالامال اساتذہ کرام کو ذلیل و رسوا کرنا شروع کر دیا ہے۔ محترم پروفیسر ڈاکٹر اکرم چوہدری جنہوں نے زندگی بھر نیک نامی کمائی، آٹھ سال سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور اُسے اوجِ ثریا تک پہنچایا، اُنہیں نیب نے یونیورسٹی کے بعض معاملات کی تحقیقات کے سلسلے میں اپنے دفتر بلایا۔ وہ پہلے بھی اپنی صفائی پیش کرتے رہے۔ اِس بار وہ گرفتار کر لیے گئے اور انہیں ہتھکڑیاں لگا کر احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔ اِس خبر کو سنتے ہی میرا پورا وجود لرز اُٹھا کہ بارِ الہا میرے عزیز وطن میں یہ سانحہ بھی پیش آنا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ میری قوم صاحبانِ علم کی یہ ذلت ورسوائی برداشت نہیں کرے گی۔ اساتذہ کی تنظیمیں، اہلِ قلم اور اہلِ علم سراپا احتجاج بن جائیں گے اور نیب کے متعلقہ افسران کی گوشمالی کریں گے۔ اربابِ حکومت کو بھی ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ورنہ اداروں کا احترام کم ہوتا جائے گا جس سے معاشرے میں افراتفری پھیلے گی اور جبر کے اندھیرے گہرے ہوتے جائیں گے۔ اِس نوع کے بندوبست ماضی میں بھی کیے جاتے رہے ہیں، مگر چشمِ فلک نے دیکھا کہ وہ آخرِکار مکڑی کا جالا ثابت ہوئے اور ہماری تاریخ میں بائولے لوگ ہی معمارِ قوم کے طور پر جگمگا رہے ہیں۔

تازہ ترین