• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پچھلے ہفتے قومی اسمبلی سے رواں مالی سال کا ضمنی بجٹ پاس کرالیا اور اس کے ساتھ ہی نان فائلرز کو چند روز قبل دی جانے والی رعایت کو واپس لے کر ایک بار پھر ٹیکس نیٹ میں آنے کا فیصلہ کرکے عملاً ٹیکس دینے والی کمیونٹی(جس میں بزنس سیکٹر سے لے کر تنخواہ دار سب ا ٓتے ہیں) سے زیادہ آئی ایم ایف کو اشارتاً سگنل دیا ہے کہ سعودی عرب اور چین کی سپورٹ کے دعوئوں اور اعلانات کے باوجود پاکستان کو اس وقت بیرونی وسائل کے اکائونٹ میں ایک بڑے خسارے کا سامنا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ درآمدات و برآمدات میں بڑھتا ہوا عدم توازن ہے جس کے باعث زرمبادلہ کی شکل میں کئی بڑے قرضوں کی ادائیگی کے لئے 10ارب ڈالر سے زیادہ تو اگلے چند ماہ میں عالمی مارکیٹ یا کسی عالمی ادارے سے لینا پڑیں گے۔ شاید اس لئے حکومت نے گیس اور بجلی وغیرہ کے نرخوں میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ یہ سب آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لئے کیا جارہا تھا ۔ اب جبکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو یہ ممکن ہے کہ رواں ماہ کے دوران وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو امریکہ جانا پڑے یا آئی ایم ایف کی سینئر ٹیم کو ایک بار پھر یہاں بلانا پڑے۔آئی ایم ایف کے پاس جانا کوئی بری بات نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے قرضے کی شرح مارکیٹ کے 7/8فیصد شرح سود کے بجائے ایک سے دو فیصد ہوتی ہے لیکن اس کی شرائط میں بنیادی شرط اور ضرورت مالیاتی اور تجارتی خسارہ کو کم سے کم سطح پر لانا اور ہر شعبہ زندگی میں مالیاتی ڈسپلن لانا اور ٹیکسوں کی بنیاد وسیع کرنا ہوتا ہے، اگر اب تک وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے اقدامات دیکھے جائیں تو یہ تقریباً آئی ایم ایف کے روٹین پلان سے ملتے جلتے ہیں جو وہ مختلف ممالک کو دیتے رہتے ہیں۔ حکومت کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ آئی ایم ایف کی شرائط سے عام آدمی کو کیسے بچایا جاسکے گا ، امیر اور طاقتور افراد کو کیسے ٹیکس نیٹ میں لاکر اور قومی وسائل کی بچت کے پروگرام کو کیسے موثر بنا کر متوازن اور منصفانہ معاشی پالیسیاں بنائی جاسکتی ہیں۔ اس وقت حکومت کا ایک بڑا فوکس اربوں روپے اور کروڑوں روپے کے ٹیکس دہندگان کے خلاف بڑا کریک ڈائون ہے۔ یہ ہر لحاظ سے اچھا اقدام ہے مگر کیا یہ بہتر نہیں کہ ایف بی آر اور ٹیکس وصول کرنے والے دیگر ادارے ٹیکس وصولی کا نظام موثر بنائیں، صرف ایسا کرنے سے سالانہ 650ارب روپے سے 800ارب روپے کی ٹیکس چوری روکی جاسکتی ہے جس میں کسٹم، انکم ٹیکس اور ایکسائز اور سیلز ٹیکس کے شعبے قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ وقت اور حالات کی سب سے بڑی ضرورت ٹیکس لینے اور ٹیکس دینے والوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو دور کرنے کی ہے، اس لئے کہ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے داخلی معیشت کو کسی قسم کے کوئی خطرات نہ ہونے کے باوجود نجانے کیوں روٹین کے بزنس میں تیزی نہیں آئی، یہ سلسلہ کراچی، لاہور غرض ہر جگہ نظر آرہا ہے، تاہم ہماری اکانومی میں 70فیصد سے زائد حصہ انفارمل سیکٹر کا ہے جہاں سب سے بڑا ایشو دستاویزی معیشت کا ہے، اس کے لئے صرف 100دن کی رعایت کا پلان دے کر نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں باقاعدہ طور پر لانے کی ایک حتمی کوشش کی جاسکتی ہے مگر اس سے پہلے ایف بی آر کے ٹیکس وصولی سسٹم کو جارحانہ کے بجائے دوستانہ بنانے کے لئے ا قدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان کی مارکیٹوں میں سالانہ اربوں روپے بلکہ کھربوں روپے کی علانیہ اور غیر قانونی تجارت اور بےنامی کاروبار ہوتا ہے۔ اس کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ مستقبل قریب میںیہ حکومت بھی بڑ ے بڑے ٹیکس نادہندگان کو کوئی اور ریلیف دیدے لیکن ہوسکتا ہے کہ آئی ا یم ایف شاید اس کی اجازت نہ دے مگر ہمارے ماہرین کے پاس ا ٓئی ایم ایف کے پروگرام میں ہوتے ہوئے ان کی شرائط کو گول مول کرنے کے کئی’’ گرو‘‘ موجود ہیں جو ہر دور میں حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔

تازہ ترین