• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’فیصلوں میں تاخیر انصاف کیلئے ناسور بن چکی ہے‘

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ فیصلوں میں تاخیر نظام انصاف کےلئے ناسور بن چکی ہے ،جب جج ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو فیصلوں میں دیر لگے گی ۔

لاہور میں تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ جب بابا رحمتے کی بات کرتا ہوں تو لوگ مذاق بناتے ہیں ، بابا رحمتے یعنی عدلیہ کے احترام کے بغیر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔

انہوں نے کہا کہ بابا رحمتے کا کردارایک مصنف کا کردار ہے جس کا فیصلہ لوگ سر جھکا کر تسلیم کرتے ہیں ۔7برس کی عمر سے لاہور ہائی کورٹ بار میں آرہا ہوں ، بابا غنی سائیکل پر مجھے لاتا تھا ۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ایک جج پر یومیہ خرچ 55ہزار روپے ہے ،ججز کئی کئی دن تک مقدمات کی شنوائی نہیں کرتے ہیں ، تاریخیں ڈال دی جاتی ہیں ،ایک خاتون کو 61سال بعد اپنا گھر واپس ملا،جس نظام کا ڈھانچا ہی جھوٹ اور بد دیانتی پر کھڑا ہوا وہ کیاڈلیور کرے گا ۔

ان کا مزید کہناتھاکہ پاکستان مفت یا تحفے میں نہیں ملا ، ملک کےلئے لاکھوں لاشیں اٹھا ئی ہیں، جوڈیشل اکیڈمی میں آنے والے ججوں کو سول قوانین کا علم نہیں ہوتا ، عدلیہ کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا ۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وہ دور چلا گیا جب ایک مقدمے میں کئی پشتیں گزرجاتی تھیں ، ججوں کو قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے اور قوانین کی بھی تجدید کرنی ہوگی ،آ ج بھی 19ویں صدی کے قانون شہادت پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں ،آج بھی دستاویز پر لکھا ہوتا ہے خاتون پردہ نشین ہے ، یا مدعی پڑھنا لکھنا نہیں جانتا ،جھوٹے دستخط کرنا کوئی مشکل کام ہے ، وہ تو میں بھی آپ کو کر کے دکھادوں ۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج شناخت اور ملکیت جیسے بنیادی حقوق بھی محفوظ نہیں ہیں ، منشاء بم جیسے لوگ جائیدادیں کھا جاتے ہیں ، کیا یہ بنیادی حق کی خلاف ورزی نہیں ، ایک اسپتال میں خاتون کا بچہ ایک ماہ کومے میں رہا ، ایک کروڑ روپے کا بل بن گیا ۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ50 پیسے کی لاگت کی پانی کی بوتل کے 32روپے لئے جارہے ہیںجس میں کیلشیم پورا ہے نہ ہی میگنیشیم ہے۔ جن چیزوں کا نوٹس لیا ان کا حل نہیں دھونڈ پایا ، نوٹس کا مقصد احساس پیدا کرنا تھا ۔

ان کا مزید کہناتھاکہ قوم کو مایوس کرنا نہیں چاہتا ، میڈیکل کالجوں نے ایک بچے کی35لاکھ روپے تک فیس لی ، ہم نے 756ملین روپے واپس لئے ، لاپتہ افراد کے بارے میں ڈی جی آئی ایس آئی اور چاروں آئی جیز سےبیان حلفی مانگے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی کتنا ہی بڑا گروپ ہو فیصلہ قانون کے مطابق ہی ہوگا ،ججوں کا فیصلے میں وجوہات نہ دے پانا بے انصافی ہے ، اللہ کرے انتظامیہ اپنا کردار ادا کرے ، تاکہ ہمیں قدم اٹھانا نہ پڑے۔

تازہ ترین