• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سر منڈاتے ہی اولے پڑنے کا محاورہ ہماری موجودہ PTI حکومت پر فٹ بیٹھتا ہے ۔اس کی قیادت کے عزم سے تو کسی کو انکار نہیں جس نے ہر لحاظ سے اچھی بھلی پاپولر مستحکم حکومت کے کڑا کے نکال دئیے۔ آج لکھنے والے جو مرضی لکھتے رہیں مگر نتیجہ نکالنے والا یہی نکالے گا کہ’’ کیوں نکالا‘‘؟ والا دیکھتا رہ گیا اورا قتدار کی ہما کو لے اڑنے والا اُسی طرح لے اڑا جس طرح پیر کے گھر سے ہوشیار مریدفیض لے اڑتے ہیں بلکہ شاید پیروں فقیروں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں ۔اب رہ گئی بات منزل پر پہنچتے ہی اولے پڑنے کی تو اس کا مسکت جواب سب پر واضح ہے کہ یہ سب پچھلی حکومت والوں کی کا رستانی ہے انہوں نے کھا کھا کر ملک کے پاس کچھ رہنے ہی نہیں دیا تو اس میں بھلا ہمارا کیا قصور ہے ۔ہم ان سے تمام اگلا پچھلا اگلوانے کی کوشش تو کر رہے ہیں یہ گرفتاریاں یہ پیشیاں اسی لیے تو ہو رہی ہیں ورنہ ہم سیاسی انتقام پر تو قطعی یقین نہیں رکھتے یہ سب تو ملک و قوم کی محبت ہے ۔ اس محبت میں ہم نے تو اپنی تکریم بھی داؤ پر لگا دی ہے ۔بھیک مانگنے سے بڑھ کر ذلت کیا ہوتی ہے ہم تو اس کے لیے بھی کھلے بندوں تیار ہو گئے ہیں۔

آج زیادہ سیانے لوگ ہمیں طعنہ نہ دیں کہ کبھی ہم نے یہ کیوں کہا تھا کہ IMF کے پاس جانے کے بجائے ہم خود کشی کر لیں گے، ہم نے تب جو کہا تھا وہ بھی درست تھا، مجبوریٔ حالات تھی ۔ انسان سے مجبوریاں بہت کچھ کروا دیتی ہیں ۔کیا ہم نے پاپولر نہیں ہونا تھا؟ کیا ہم ہمیشہ کے لیے جماعت اسلامی یا تحریک لبیک جیسی پا رٹی بن کر بیٹھے رہتے۔ خود خدا یہ کہہ رہا ہے کہ ’’جو خود کچھ نہیں کرتے اُن کی میں بھی مدد نہیں کرتا‘‘ ۔۔۔اس کے بعد بغیر امپائر کی انگلی اٹھنے کا گمان کر لینا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں جونہی ہم نے قوم کوسہانے خواب دکھاتے ہوئے اونچی امیدیں دلائیں قدرت کی غیبی طاقتیں بھی ہماری ہمنوا ہوتی چلی گئیں ۔کہاں ہیں وہ نام نہاد دانشور اور مدبر جو ہمیں طعنے دیاکرتے تھے کہ ہم سیاست میں اناڑی ہیں ۔آج اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہم نے تین تین مرتبہ منتخب ہونے والے تجربہ کاروں کو کس خوبصورتی سے چاروں شانے چت کر کے رکھ دیا ہے۔

ہم صاف بتائے دیتے ہیں کہ سیاست بہترین چالوں کا نام ہے جو اچھی چال چلتا ہے، وہی مقدر کا سکندر ٹھہرتا ہے عوام کا لانعام کی کیا ہے وہ تو پروپیگنڈے کے مارے ہوتے ہیں ۔اپنی 70سالہ تاریخ پر ایک نظر ڈال لو اس سے پیچھے جانا ہے تو وہاں بھی چلے جاؤ عوام ہمیشہ ادھر ہی گئے ہیں جدھر ہوا کا رخ ہوا ہے، میڈیا نے جدھر کا پروپیگنڈہ کیا ہے، اس لیے ہم نے اصل رمز پالی ہے کہ میڈیا کو بغیر ظاہری نتھ ڈالے کس طرح قابو میں رکھنا ہے ۔جو بڑے بڑے تیس مار خاں بنے پھرتے تھے آج وہ کہاں ہیں ؟آج کسی نے سیاست سیکھنی ہے یا ا س کے گُر سمجھنے ہیں تو ہمارے آستانہ عالیہ پر حاضری دے۔یہاں سے سب کچھ مل جائے گا ۔نالائق کہیں کے، کہتے ہیں کہ ہم IMF میں کیوں گئے ہیں ؟بھائی کیوں نہ جاتے ؟ہماری عزت اور آن ملک و قوم سے اونچی تو نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ہم نے کشکول توڑنے کا وعدہ کیا تھا۔ وعدے تو ہم نے اور بھی بہت سے کیے تھے اب لازم تو نہیں کہ ہر وعدہ پورا بھی ہو۔ ہمارے ایک سابق صدر فرما چکے ہیں کہ وعدے کوئی قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے ۔سمجھدار انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے حالات کو دیکھے۔اُس وقت ہمارا یہی خیال تھا کہ ہم ہر مشکل پر اپنے عزم کے ساتھ قابو پا لیں گے، جب اقتدار کی باگیں ہمارے ہاتھوں میں ہوںگی تو پھر نیچے کوئی گڑ بڑ نہیں کر سکے گا لیکن جب ہم نے ادھر آکر دیکھا تو معلوم ہو اکہ انہوں نے تو ہر چیز میں بربادی کر رکھی ہے ان کی یہی اصلیت سمجھانے کے لیے ہم نے آتے ہی بھینسیں بھی بیچیںاور چندے کی اپیلیں بھی شروع کر دیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ چندوں سے ملک نہیں چلتے لیکن جس کا جس چیز میں تجربہ ہو وہ اُسی کو کام میں لاتا ہے ۔

ہم نے چندوں سے پورے ملک میں کینسر اسپتالوں کا جا ل بچھا رکھا ہے کیونکہ یہ قوم ہم پر اعتبار کرتی ہے۔ ہم قوم کو دکھا دیں گے کہ کس طرح چندے کی رقوم سے تین سو پچاس ڈیم تعمیر ہوسکتے ہیں، مگرمسئلہ محض ڈیموں کا نہیں ہے عوام کے اور بھی بہت سے مسائل ہیں۔ ہم نے فوری طور پر انہیں ایک کروڑ نوکریاں دینی ہیں ۔ ان کا رہائشی مسئلہ حل کرنے کے لیے پچاس لاکھ مکانات بنوا کر دینے ہیں اور پھرا س سب سے بڑھ کر عوام کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہم ایک ازلی و ابدی دشمن کی ہمسائیگی میں بس رہے ہیں جس کے ساتھ ہمارا بہت بڑا جھگڑا 70سالوں سے چلا آرہا ہے اور سب یہ جانتے ہیں کہ دوست تو بدلے جا سکتے ہیں مگر ہمسائے نہیں، ہمسائیگی میں بڑی کرسی پر ایک چھوٹا آدمی بیٹھا ہے۔ ان حالات میں ہم اپنے دفاع کی ضروریات سے کیسے غافل ہو کر بیٹھ سکتے ہیں؟جسے اس حقیقت کا ادراک نہیں تھا آج بے یارومدد گار ہو کر دیار غیر میں بیٹھا دھکے کھا رہا ہے اور ہم انٹرپول کے ذریعے اس کی گرفتاری کا اہتمام کر رہے ہیں ۔لہٰذا قوم کو بہرصورت اپنے دفاع کو مضبوط بنانا ہوگا۔ مضبوط دفاع کے بغیر دنیا کی کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اس حوالے سے جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے اپنی ہمسائیگی میں بڑی عالمی طاقت چین سے تنازعات اور دشمنی کے باوجود دفاع کو اتنا مضبوط بنا رکھا ہے کہ چین کبھی بھی جاپان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ نہیں سکتا اور جاپانی عوام سکون کی نیند سوتے ہیں۔

ہم نے دنیا کے کسی ملک سے نہیں بگاڑنی، سب سے بنا کر رکھنی ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا سے ہماری دوستی تو سات دہائیوں پر محیط ہے ہم کسی کے اکسانے پر اس سے کیوں بگاڑیں گے؟ اگرآئی ایم ایف یہ کہہ رہی ہے کہ اپنے تمام قرضوں کی تفصیل فراہم کریں چاہے وہ چین سے لیے ہیں یا کہیں اور سے تو یہ اُن کا حق ہے اور پھر اس میں قباحت ہی کیا ہے ۔ہم نے وہ قرضے کھائے تو نہیں ہیں لگائے ہی ہیں نا، سی پیک پر، تو ان کی شفافیت دکھانے میں کیا حرج ہے ؟ بس ایک مرتبہ آئی ایم ایف کے قرضے ہاتھ لگ جائیں ہم اس ملک و قوم کی تقدیر بد ل کر رکھ دیں گے ۔اس کے ساتھ کچھ مہنگائی کا دبائو ضرور آئے گا مگر بڑے مقاصدکے لیے چھوٹی قربانیاں تو دینا پڑتی ہیں۔ نادان کہتے ہیں کہ ہم نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کیوں کم کر دی ہے ؟ذرا گہری نظر سے سوچیں اس میں عام آدمی کا کتنا بھلا ہو ا ہے۔ اگر عام پاکستانی نیو یارک سے اپنے ملک ایک ہزار ڈالر بھیجتا تھا تو گھر والوں کو محض ایک لاکھ روپے ملا کرتے تھے یہ سابق حکمرانوں کی نااہلی تھی جسے ہم نے بروقت بھانپ لیا ہے اب آپ کو ایک ہزار ڈالر کے پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ روپے ملا کریں گے ۔

یہ میڈیا والے تو ہر چیز میں کیڑے ڈالتے ہیں۔ اسد عمر کی ان معاشی پالیسیوں سے ایک دن انہیں معیشت کا نوبیل پرائز ملے گا۔ اگر یہ اعزاز ایک بنگالی کو چھوٹے قرضے دینے پر مل سکتا ہے تو آئی ایم ایف سے اربوں ڈالر کے قرضے ملک کے اندر لانے والے کو کیوں نہیں مل سکتا؟ہماری انہی پالیسیوں کی وجہ سے اندرونی و بیرونی سرمایہ کار وطنِ عزیز میں دوڑے چلے آرہے ہیں، انڈر پاسز اور برجز بننے جا رہے ہیں، تمام پسماندہ خطوں میں انڈسٹری لگنے جار ہی ہے، ملک آئی ٹی حب بننے جا رہا ہے، ترقی یافتہ اقوام اب ہماری مثالیں دیا کریں گی کیونکہ ہم مایوسی پھیلانے والے نہیں، ہم امید اور تبدیلی کے علمبردار ہیں۔ باایں حالات اس درویش کی درخواست ہے کہ ترقی کے رستے میں روڑے اٹکانے کی قطعاًکوشش نہ کریں۔ اتنے عزائم اور امیدوں کے ساتھ آنے والوں کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے معقول وقت بہرصورت ملنا چاہیے ۔

تازہ ترین