• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! آپ گواہ ہیں کہ ’’آئین نو‘‘ میں اسٹیٹس کو اور اس کے تسلط و تباہی سے ملک و قوم کو محفوظ رکھنے اور ازالے کے لئے ’’احتساب‘‘ کی نشاندہی اولین قومی ضرورت بالخصوص تحفظ اور فروغ جمہوریت کے فوری مطلوب ذریعے کے طور پر تواتر سے کی گئی۔ اسٹیٹس کو کی مزاحمتی طاقت اور جاری احتساب کے حوالے سے تازہ ترین ملکی صورتحال اس پس منظر میں تشکیل ہوئی کہ دو منتخب حکومتوں کے گزرے عشرہ اقتدار (2008-18)میں جب موجودہ وزیراعظم عمران خان کی تشکیل دی گئی جماعت، تحریک انصاف کا ظہور نئی قومی جماعت کے طور پر تیزی سے ہورہا تھا تو اس کی بڑھتی مقبولیت کے ساتھ ہی دوسرا چیلنج بھی پیدا ہورہا تھا کہ اسٹیٹس کو اکھاڑ کر کیسا نظام لانا ہے اور کیسے اسے کامیاب کرنا ہے۔ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ نئی پارٹی کے سربراہ نے اسٹیٹس کو کو اس کے انتہائی غلبے پر چیلنج کیا، ناصرف چیلنج عملی جدوجہد بھی، لیکن جیسے جیسے پارٹی مقبولیت حاصل کررہی تھی اور اسٹیٹس کو کے لئے بڑا چیلنج بنتی جارہی تھی، قیادت کا اسٹیٹس کو پر فوکس اوور ہوگیا، یا سمجھنےکی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ جو دعوے تبدیلی کے کئے جارہے ہیں اور جو بکھرا بکھرا پروگرام عوام کے لئے لایا جارہا ہے، اس کا ہوم ورک کتنا ضروری ہے۔ حکومت مل گئی تو عزائم کو عمل میں ڈھالنے کے لئے کس قسم کی مہارت اور کس نوعیت کی مشاورت جنگی بنیاد پر فوری مطلوب ہوگی۔ روڈ میپ تیار کرنا کتنا ضروری ہے۔

امر واقع تو یہ ہے کہ ملک بھر میں اسٹیٹس کو کے سرعام برہنہ ناچ پر اور اسے للکارنے اور قوم میں ایک درجے پر اس کے تباہ کن ہونے کا شعور اور اکھاڑ پھینکنے کے عزم کے باعث دست قدرت اس باشعور اور باضمیر طبقے کی طرف بڑھنا شروع ہوگیا تھا۔ آج وقت نے ثابت کردیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری بھی اسٹیٹس کو کے رنگ کے ہی تھی، لیکن منصب اعلیٰ کو برقرار رکھنے کی طمع میں انہوں نے آئین و قانون کے سچے سہارے سے جو ’’نو‘‘ کی اس نے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو اجتماعی طور پر چیلنج ضرور کردیا، یہ ایک قدرتی راہ تھی۔ سو، وکلا کی تحریک فقط عدلیہ کی آزادی کی ہی تحریک نہیں تھی، اس سے احتساب کا دروازہ کھلنا تھا، وہ احتساب جو ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے اسٹیٹس کو کو گردن سے پکڑنے کی صلاحیت پکڑتا معلوم دے رہا تھا، جب قوم اس کے لئے تیار ہوئی، شعور مطالبے اور قومی ضرورت میں تبدیل ہونے لگا، ایسی کہ اسٹیٹس کو کے علمبردار بھی اسے اہم ’’قومی ضرورت‘‘ ماننے لگے، اور اس ساری صورت کے مقابلے کے لئے پوری تیاری بھی کررہے تھے کہ پاناما آسمانی مدد کے طور پر نازل ہوا۔ اب قومی ضرورت کو مدد خدا مل گئی۔ آج اسٹیٹس کو تمام طاقتیں انتخابی شکست کے بعد، بعداز ادھوری تبدیلی، عدلیہ بتدریج اپنے اصل آئینی کردار کے مطابق کام کرتی کرتی ریاست کا سب سے اہم اور مقدم ادارہ بن چکی ہے اور اسی کردار نے آزاد نیب کو ممکن بنا دیا۔ نیب ہر دو جماعتوں کے سابقہ مقتدر قائدین کے احتساب کا ذریعہ بن گیا اور عدلیہ تو حلف سے بے وفائی اور عدالتی فیصلے کی حکم عدولی سے وزیراعظم گیلانی اور حج اسکینڈل پر ان کے وزیر کو انصاف مہیا کرنے سے اب تک ارتقا کی شکل میں ہے، جس میں کچھ اچھوتا بھی ہورہا ہے، لیکن بدنیتی اور بدعنوانی سے نہیں، مجموعی صورتحال یقیناً نتیجہ خیز اور ملک و قوم کے لئے حوصلہ افزا اور آئین کی بالادستی کا واضح راستہ ہے۔جہاں تک نیب کا تعلق ہے اس کے دو کردار بہت واضح ہیں۔ آج ’’اتحادی اپوزیشن‘‘ جب اس پر یہ الزام لگاتی ہے کہ ’’سیاسی انتقام کا ٹول ہے‘‘ تو اس میں فقط ’’ہے‘‘ ہی غلط ہے،اس سے پہلے ’’رہی‘‘ لگادیں ان کا بیانیہ حق اور سچ ہوگا۔ آج کا سچ ہے کہ ’’نیب‘‘ نے قانون اور آئین کی روشنی میں عدلیہ کی مدد اور اسٹیبلشمنٹ کی روایتی مداخلت متروک ہونے سے جو آزادی حاصل کی ہے، اس میں اس ایک ہی آئینی ادارے کے اپنے اصل کردار کی طرف آنے سے آج احتساب کی علمبردار عمران حکومت گمبھیر اقتصادی بحران میں بھی ہے کہ قوم عمران خان کے خواب کے مطابق ’’خود دار پاکستان‘‘ کے خواب کی تعبیر ملک کی لوٹی دولت بذریعہ کڑا، لیکن بمطابق آئین و قانون میں تلاش کررہی ہے۔ اگر نیب کی طرح ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان ، ایف بی آر، پولیس اور سب سے بڑھ کر بحیثیت مجموعی بیوروکریسی اپنے اصل آئینی کردار کی طرف آجائے اور کم از کم خود کونیب جتنا شفاف بنا لیں تو موجودہ تشویشناک بحران کے ختم نہیں تو تیزی سے ختم ہونے کی امید یقینی مطلوب نتائج تک پیدا ہو جائے گی۔

آج کا ’’نیب‘‘ کسی کا ٹول نہیں بلکہ اپنے آئینی کردار کے مطابق محدود سکت کے ساتھ بھی سرگرم ہوا ہے تو پاکستان میں ٹاپ ٹو ڈائون احتساب کی انہونی، ہونی ہوگئی ہے۔ ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ پاکستان کی جانب ایک نتیجہ خیز اقدام۔ لیکن بیوروکریسی اور وائٹ کالر جرائم کی سرکوبی کے متذکرہ دوسرے اداروں کے موجود فنکشنریز معلوم دیتا ہے۔ احتسابی عمل شروع ہونے، وزیراعظم ایک دیانت دار کے وزیراعظم بن جانے اور عدلیہ کی سرگرمی سے ناصرف صدمے سے دوچار رہے بلکہ حربوں اور فن کاریوں سے سب کچھ اچھا ہونے والا ریورس کرنے کے لئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے اور اچھے کے متوازی سخت مزاحمت ہورہی ہے۔

نیب کی بڑی کامیابی کا انحصار دو واضح حقائق پر ہے کہ احتسابی ترجیح ٹاپ ٹو ڈائون ہی ہو، اس میں خلل اس کے معیار اور اعتبار کے لئے خطرہ ہوگا۔ دوسرے، مختلف مطلوب طبقات کا احتساب توازن کے ساتھ لازم ہے۔ قوم برسوں سے بیانیہ بنا چکی ہے، جس میں ترجیحاً سابق و حال حکمراں، بیوروکریسی، منتخب نمائندگان، جرنیل، میڈیا اور اب علماء کی بھی بات ہونے لگی ہے، شاید اس کے ذمے دار مولانا فضل الرحمٰن ٹھہریں۔

ہے تو مکالمے کا موضوع، لیکن پروفیسروں کی باری تو بہت آگے آنی چاہئے تھی، لیکن یہ جتنی جلد آئی اور جیسے آئی نیب کے خلاف سازش معلوم دیتی ہے۔ میں اپنی برادری کے عدم احتساب کی بات نہیں کررہا، لیکن پنجاب یونیورسٹی کے میرے سابقہ رفقائے کار کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جس جلد بازی میں، وہ نیب کے لئے بڑا سوال ہے۔ انہیں ہتھکڑی لگانے پر تو چیف جسٹس صاحب بھی سر پٹا گئے ہیں۔ پھر ان پر تقرری میں بے قاعدگی کا الزام ہے کوئی مالی گھپلوں کا نہیں۔ ہے تو ضرور احتساب ہو لیکن معمول کی تفتیش و تحقیق کے بعد نوبت نیب تک جانی چاہئے تھی۔ جن کو ہتھکڑیاں لگی میرے دوست بھی ہیں اس لئے بھی دکھی بھی ہوں۔ یہ ہتھکڑی کیسے لگی؟ اس کی مطلوب تحقیق ضروری ہے۔ اس سے گیا گزرا معاشرہ بھی دکھی ہوا ہے۔ کیا نیب کا احتسابی عمل اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ سیاست دانوں، حکمرانوں ان کے بڑے بڑے درباریوں نے بڑی تعداد میں جو غلط تقرریاں یونیورسٹی میں کروائی، کیا نیب اس نظام سے واقف ہوتی ہے؟ پروفیسرز کو آئیڈیل ہی ہونا چاہئے لیکن نہ ہو تو وہ استاد تو بہرحال ہوتا ہے۔ اللہ مجھے پیشہ ورانہ برادری کے تعصب میں جھوٹ نہ بلوائے ، ملک پر مسلط اسٹیٹس کو نے پروفیسرز میں بھی علم دوستی سے زیادہ انتظامی اختیار کی طمع تو پیدا کردی تھی، اس کی مجرم ن لیگ اور پی پی کی حکومتیں ہیں جنہوں نے 2پبلک یونیورسٹیاں ایچ ای سی کی چھتری سے نکال کر صوبائی سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے حوالے کردیں اور انہوں نے انہیں یونیورسٹیاں نہیں بلکہ آئوٹ آف دی وے بھرتیوں کا بڑا ذریعہ سمجھ لیا، جس کے ذمے دار براہ راست وزرا اعلیٰ اور گورنر ہیں۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین