• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجلیاں تو گرتی بہت دیکھی تھیں، لیکن اب کی بار ’’میرا آشیاں کیوں ہو‘‘ کی کسر بھی دُور ہو گئی۔ ’’نئے پاکستان‘‘ کے جو سنہرے خواب دکھائے گئے تھے، وہ اس تیزی سے چکنا چور ہوں گے، اس کا گمان مشکل ہے۔ ’’اسٹیٹس کو‘‘ (Status quo) تو کیا ٹوٹنا تھا، البتہ اسے جان کے لالے ضرور پڑ گئے ہیں۔ ’’ہنی مون‘‘ کے 100 روزہ انقلابی پروگرام کا نام و نشان ہے کہ ملنے کو نہیں۔ لے دے کے وہی نعرے بازی۔ کبھی ’’سبز و صاف پاکستان‘‘ اور گیس اسٹیشنز پر بیت الخلاؤں کی صفائی کی نگرانی کے لطیفے۔ یا پھر پچاس لاکھ گھروں کے 180 ارب ڈالرز کے ہوائی قلعے جو ’’پلّے نہیں دھیلا، کردی میلہ میلہ‘‘ محاورے کی تلخ یاد دلاتے ہیں۔ خزانہ ’’خالی‘‘ ہے کے واویلے میں یار لوگ کشکول لئے نگر نگر خیرات مانگتے پھر رہے ہیں اور بھیک ہے کہ ملتی نظر نہیں آ رہی۔ اب نامراد ہو کر عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے دروازے پر دستک دینے کا فیصلہ ہوا، تو ہمارے مولانا فضل الرحمان کی حسِ ظرافت تو پھڑکنی ہی تھی اور اُنہوں نے آئی ایف ایف جانے کی بجائے خودکشی کرنے کے وعدے پر ایک اچھوتی ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز داغ دی۔ کاسۂ گدائی کیا خالی ہوا کہ بیچارہ روپیہ زمین پہ آ رہا اور مہنگائی کا بھوت ہر سو چھا گیا۔ ایسے میں جب نامۂ اعمال میں کچھ دکھانے کے کہیں آثار نہیں، تو کرپشن کے خلاف احتساب کا ڈھنڈورا پیٹنے کے سوا چارہ کار ہی کیا ہے۔ پہلے احتساب نے کرشمہ دکھایا اور سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز عام انتخابات سے عین پہلے سزاوار ہوئے اور جیل پہنچے اور اب قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف ضمنی انتخابات کے معرکے سے ذرا ہی پہلے نیب (NAB) کے ہتھے چڑھ گئے۔ احتساب کے ناطے کبھی بھٹو صاحب کے ہاتھوں بڑے بڑے جغادریوں کو ہتھکڑیاں لگتے تو دیکھی تھیں، لیکن بیچارے بزرگ پروفیسروں کو کڑیاں لگتے پہلی بار دیکھ کر دل لرز لرز گیا ہے۔ آخر احتساب کا کڑاپن، اساتذہ کو پا بہ جولاں کیے بغیر کیسے اپنی ’’اخلاقی ہیبت‘‘ قائم کر سکتا ہے؟ آج آزادانہ دھاندلی کا ضمنی ایڈیشن بپا ہونے کو ہے، دیکھیے کیا گل کھلتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی نو اور صوبائی اسمبلیوں کی 26 نشستوں کے بکسوں میں کیا ڈلتا ہے اور کیا نکلتا ہے۔ آزادیِ صحافت تو غائب ہوئی ہی تھی اور انصاف کا عمل ناپید، اب انتخابی عمل کی بے ثباتی سے کیا اُمید!

بات بجلیوں کے گرنے سے شروع ہوئی تھی۔ ابھی جو نشیمن پہ بجلی گری ہے وہ روپے کی بے قدری اور مہنگائی کے طوفان کی ہے جو تھمنے والا نہیں۔ مہنگائی نے پچھلے دور کی اوسط سے ابھی دُگنا، تگنا ہونا ہے۔ اور رہی قرضوں کے کمر توڑ بوجھ کی تو ذرا انتظار کیجیے کہ ابھی تو حکومت نومولود ہے، اگلے دو تین برس میں 90 ارب ڈالرز میں کشکول توڑنے والوں کے ہاتھوں کم از کم 30 ارب ڈالرز کا اضافہ ہونا ہے۔ ترقی کی شرح جو بدنامِ زمانہ اسحاق ڈار کے ہاتھوں 5.8 فیصد ہو گئی تھی پھسل کر نیچے گرے گی اور نئے ضمنی میزانیے کے تخمینے 4.8 فیصد سے کہیں کم۔ رہا پھڑپھڑاتا روپیہ اگر وہ ایک سو 150 روپے فی ڈالر پہ بھی رُک جائے تو غنیمت ہوگی۔ کشکول شکنوں کو یہ گوارا نہ تھا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے پاس جانے کی سُودی لعنت گوارا کریں۔ اسی لئے مدنی ریاست کی تعمیر کے لئے غیرسُودی قرضِ حسنہ کے رحمت کدے پر حاضر ہوئے اور اُن کے حضور نقد زر کے علاوہ، آئل ریفائنری، سونے اور تانبے کی کانوں میں سرمایہ کاری اور اُدھار تیل سے لے کر سی پیک (CPEC) میں شراکت داری تک سبھی التجاؤں کی جھولیاں پھیلا دیں۔ ظاہر ہے زمانہ اب مدنی دَور سے کہیں دُور چلا گیا ہے، اسلامی بھائی چارے کی یکجہتی بھی قصۂ پارینہ ہوئی۔ اور قل العفو کا سبق کبھی کا بھلایا جا چکا۔ جب اتنا کچھ مانگا جائے گا تو مفت ملنے سے رہا۔ خطے میں ایران سے جوہری معاہدہ توڑ کر امریکہ بہادر ایک نئی جنگ چھیڑنے کو ہے اور وہ سعودی عرب پر یہ دباؤ بھی بڑھا رہا ہے کہ تیل کی پیداوار بھی بڑھاؤ اور قیمت بھی کم کرو۔ اوپر سے صدر ٹرمپ کی یہ دھمکی بھی کہ خانوادۂ سعود کے اقتدار کو امریکی بندوق کا سہارا نہ ہو تو وہ دو ہفتے بھی نہ رہ پائے گی۔ ظاہر ہے ہم دوستی دوستی میں جتنا کچھ مانگ رہے تھے، اس کے لئے جو قیمت چکانی پڑتی وہ غالباً مملکتِ خداداد کے رکھوالوں کے لئے ادا کرنی محال تھی۔ پھر قلابازیاں تو لگنی ہی تھیں۔ اور ایسی لگیں کہ اسٹاک مارکیٹ کے زمین بوس ہونے پر عالمی مالیاتی فنڈ کی پناہ حاصل کرنی پڑی۔ اور جو ’’آؤٹ آف باکس‘‘ متبادل معاشی منصوبہ بن رہا تھاوہ ایک جھٹکے میں ختم ہو گیا۔ اب ہمارے دوست ڈاکٹر عابد قیوم سلہری (جو خیر سے معاشی ایڈوائزری کونسل کے رُکن ہیں) کیسے ہی ’’گھر میں گھڑے‘‘ (Home-grown) اصلاحاتی نسخے کا مژدہ سنایا کئیں، وہ طفل تسلی کے سوا کچھ نہیں۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم بار بار آئی ایم ایف کے پاس کیوں جاتے ہیں اور کب تک بیماری کے اصل علاج کے بغیر بیماری کی مالی و مالیاتی علامات (Symptoms) کے زہر کا علاج زہر سے کرتے رہیں گے۔ پھر اگر آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی تھا تو کیوں اتنی دیر کر دی میری جان جاتے جاتے۔ اب اگلے دو تین برس کو عمران خان کی حکومت ایک کروڑ نوکریوں، 50 لاکھ گھروں اور پانچ ارب درختوں کے خواب دکھانا بھول جائے۔ مہنگائی، بے روزگاری، ٹیکسوں کا بوجھ، بجلی و گیس کی قیمتیں مزید بڑھنی ہیں، ترقیاتی بجٹ کٹنا ہے اور غیرپیداواری اخراجات کم کر کے بھاری بھر کم اداروں اور بے مصرف وفاقی ڈویژنوں کی کمر کسنے کی کسی میں ہمت نہیں۔

اب کس کس بات کا ذکر کریں، ہر کام ہی نرالا ہے۔ وہ جو لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے انبار لگنے تھے اور 10 ارب ڈالرز کی غیرقانونی اُڑان روک کر خزانے بھرے جانے تھے اور بیرونِ ملک پاکستانیوں نے چندوں سے مالی خسارہ دور اور مالیاتی خسارہ ختم کرنا تھا، اُس کا کیا بنا! بننا بھی کیا تھا۔ کتنوں نے ہزار ہزار ڈالرز ڈیم فنڈ میں بھجوائے، ذرا ہمیں بھی پتہ چلے۔ تھوک کے پکوڑے پکانے سے سواد کہاں ملتا ہے۔ ہاں! یاد آیا وہ ایک نصاب اور ایک نظامِ تعلیم کا کیا ہوا۔ جو بات بڑی تشویش والی ہے وہ یہ کہ وفاقی حکومت صوبائی خودمختاری کو فارغ کر چکی ہے۔ پنجاب اور پختون خوا میں ڈمی وزرائے اعلیٰ لگا کر صوبائی محکموں کے کام وفاق چلا رہا ہے۔ بلوچستان میں تو صوبائی خودمختاری کبھی کی دفن کر دی گئی تھی اور اب صدرِ مملکت کی سربراہی میں سندھ سے بالا بالا کراچی کو وفاقی دائرے میں لانے کے جتن کیے جا رہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم، 1973ء کے اصل آئین کی طرح قصۂ پارینہ ہوئی۔ اور اب این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے حصے کو وفاق کے حصے سے کم کرنے کے نت نئے فارمولے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کی گئی وزارتیں اور ڈویژنز ختم کیے جاتے اور وفاق کے تحت چلنے والے بھاری بھر کم اداروں کا بوجھ کم کیا جاتا اور نقصان میں چلنے والے سرکاری کاروباروں کی اصلاح کی جاتی، ہمارے دوست ڈاکٹر حفیظ پاشا صدرِ مملکت کو طریقے سمجھا رہے ہیں کہ صوبوں کا حصہ کیسے کم کرنا ہے۔ پہلے ہی ہماری انسانی سلامتی نہ ہونے کے برابر ہے، اب وفاق کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ آخر ہم اپنی آمدنی سے زیادہ کب تک ہر طرح کے بیہودہ اور بے مقصد خرچے کرتے رہیں گے اور اپنی استطاعت سے زیادہ تذویراتی خطرات مول لیتے رہے ہیں۔ دست نگری کی معیشت میں کاسۂ گدائی ختم ہوگا، نہ ایک نحیف و ناپائیدار معیشت کی ناتواں بنیاد پہ عظیم الشان بالائی ڈھانچہ قائم رہ سکے گا۔ اب بیچارگی اور مجبوری میں بالائی ڈھانچے کے دھڑام سے نیچے گرنے کا انتظار کیا جائے، یا ایک مضبوط معیشت کی بنیاد کی تعمیر کے لئے چین سے مدد لی جائے اور قرض کی مَے سے توبہ کی جائے۔ وگرنہ تبدیلی کی بجلیاں یونہی گرتی رہیں گی۔ بجلیاں تو گرتی بہت دیکھی تھیں، لیکن اب کی بار ’’میرا آشیاں کیوں ہو‘‘ کی کسر بھی دُور ہو گئی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین