• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ بچے اپنے کھیل میں مگن تھے۔ کھیل کود تو بچوں میں زندگی کی علامت ہے۔ ہاں ساری دنیا کے بچے کھیلتے ہیں اور اچھے لگتے ہیں لیکن جس طرح ضلع سکھر کے گوٹھ غلام سرور شنبانی کے بچوں کے ساتھ ہوا، اس طرح تو کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے۔ خوشی سے ہنستے، چیختے اور چلاتے بچوں پر گھر کی خستہ حال دیوار اچانک گرتی ہے اور حیات آفرین چہکتی آوازیں ملبے کے ڈھیر تلے دب جاتی ہیں۔9 بچے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں جبکہ دو بچوں کو انتہائی تشویش ناک حالت میں اسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ آئیے ماتم کریں ان معصوم بچوں کی موت پر، جس کا سبب صرف اور صرف غربت ہے۔

اس سانحہ کی خبر جب ٹی وی چینلز پر چل رہی تھی تو اچانک سارے چینلز ایک اور ’’ بریکنگ نیوز ‘‘ کی طرف چلے گئے۔ بریکنگ نیوز یہ تھی کہ پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) سے قرضہ حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ درخواست دے دی ہے تاکہ پاکستان کو مشکلات اور معاشی بحران سے نکالا جا سکے۔ 9 معصوم بچوں کی مظلومانہ موت کی خبر اس بڑی بریکنگ نیوز کی دیوار تلے دب گئی۔ 4 سے 12 سال کی 6 معصوم لڑکیاں رخسانہ، گڈی، زلفت، رخسانہ، منظوراں اور ستاراں اور 3 معصوم لڑکوں یعقوب، اکبر اور دلشاد کی موت کی خبر دوسرے دن کے اخبارات میں بھی آئی ایم ایف سے قرض لینے کی خبر کی وجہ سے نمایاں طور پر شائع نہ ہو سکی۔ اس سانحہ عظیم کی خبر دب جانے پر پتہ نہیں مجھے کیوں یہ احساس ہوا کہ گوٹھ غلام سرور شنبانی کے اس غریب گھر کی بوسیدہ قاتل دیوار کے ملبے کے نیچے سے ہنسنے والے بچے اب رو رو کر چیخ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ’’ آئی ایم ایف کے پاس کیوں جا رہے ہو۔ کیا ہم جیسے مزید بچوں کو غربت کی موت مارو گے ؟ ‘‘ مجھے ممتاز برطانوی دانشور گراہم ہینکوک ( Graham hancock ) کی کتاب ’’ غربت کے آقا ‘‘ یاد آنے لگی، جس میں انہوں نے گہری تحقیق اور دستاویزی ثبوت کے ساتھ ثابت کیا کہ غریب ملکوں کو دی جانے والی امداد مزید غربت کا باعث بنتی ہے اور یہ عالمی ادارے غربت کے آقا ہیں۔

پاکستان آئی ایم ایف سے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ لینے جا رہا ہے۔ 1988 ء کے بعد آئی ایم ایف کے پاس 13 ویں مرتبہ جائے گا اور ہر مرتبہ پاکستان اپنی مشکلات کم کرنے کے لئے کشکول لے کر کھڑا ہوتا ہے۔ قرضہ بظاہر ان شرائط پر دیا جاتا ہے کہ ’’ معاشی اصلاحات کی جائیں گی اور غربت ختم کرکے لوگوں کا معیار زندگی بلند کیا جائے گا۔ ‘‘ انہیں ڈھانچہ جاتی اصلاحات یا اسٹرکچرل ریفارمز کا نام دیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر قرضے کے بعد پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور مزید لوگ خط غربت کے نیچے چلے جاتے ہیں۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی شرائط پر 12 مرتبہ پہلے قرضہ دینے والا آئی ایم ایف یہ موقف اختیار کر رہا ہے کہ پاکستان تو اب قرضہ لینے کے قابل بھی نہیں رہا۔ قرضہ دینے کا فیصلہ اس امر کا جائزہ لینے کے بعد کیا جائے گا کہ پاکستان قرض لینے کا اہل بھی ہے یانہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا یہ ہے کہ موجودہ معاشی صورت حال انہیں ورثہ میں ملی ہے۔ ان کے بقول سابقہ سیاسی حکومتوں نے ملک کو لوٹا اور اس حال تک پہنچایا۔ اس لئے وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے لئے مجبور ہوئے۔ عمران خان کی اقتدار میں آنے سے قبل ایک تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ خود کشی کر لیں گے لیکن بیرونی قرضہ نہیں لیں گے۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان صاحب کو یہ اندازہ ہوا ہے کہ معاملات کیا ہیں۔ انہیں یہ بھی پتہ چل گیا ہو گا کہ یہ محض قرضہ نہیں ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے پورے عالمی سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام کے محافظ ہیں۔ وہ عالمی سیاست کو کنٹرول کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ بھی احساس ہو چکا ہو گا کہ ان کے دورہ عرب کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں سعودی بادشاہ شاہ سلمان کو دھمکی آمیز پیغام دیا اور کہا کہ اگر امریکی فوجیں ساتھ نہ دیں تو شاہ سلمان کی حکومت دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی۔ امریکی صدر کے اس بیان کے بعد لوگ یہ بھی کہنے لگے کہ اب پاکستان کو سعودی عرب سے کسی بیل آؤٹ پیکیج یا امداد کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ پاکستان گھٹنوں کے بل آئی ایم ایف کے سامنے جا گرا۔ یہ بھی محض اتفاق نہیں کہ آئی ایم ایف کو قرضے کی باقاعدہ درخواست دینے سے پہلے پاکستان میں گیس اور بجلی مہنگی ہوئی اور ڈالر کے مقابلے میں روپیہ اپنی قدر نہ بچا سکا۔ ترمیمی فنانس ایکٹ کی منظوری بھی کسی کو اپنی منصوبہ بندی نہیں لگتی ہے۔ جی ہاں یہ محض قرضہ نہیں ہے پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف کو قرضے کی درخواست دیتے ہی امریکا بھی کود پڑا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پاکستان اس حالت میں ان قرضوں کی وجہ سے پہنچا ہے، جو اس نے چین سے حاصل کیے ہیں۔ پہلے قرضوں کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن دیکھی جائے گی اور اس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج دے یا نہیں۔ امریکی مداخلت بھی کوئی اتفاق نہیں ہے۔ اس مداخلت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آئی ایم ایف نے اگر اگلا قرضہ دیا تو اس کی شرائط کیا ہوں گی۔ وہ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کے منصوبوں کو ختم کرنے اور چین سے مزید قرضے نہ لینے کی شرط بھی عائد کر سکتا ہے۔ وہ ایسی شرائط بھی عائد کر سکتا ہے، جو پاکستان کے لئے اس کوشش پر سزا کے مترادف ہو سکتی ہیں کہ سابقہ سیاسی حکومتوں نے امریکی کیمپ سے نکلنے کی جسارت کیسے کی۔ پاکستان کے لئے مزید ایسی شرائط بھی ہو سکتی ہیں کہ مزید لوگ اپنی خستہ حال چھتوں اور دیواروں کی مرمت نہ کراسکیں۔ گوٹھ غلام سرور شنبانی کے غریب گھر کی گری ہوئی دیوار مزید یہ بتا سکتی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں نے پہلے کیا کیا اور آئندہ کیا کریں گے۔ تیسری دنیا میں افراتفری، انتشار، خونریزی، غربت، بھوک اور بے بسی کی ساری کہانیاں اس ملبے کے نیچے دفن ہیں۔ اس دیوار کا ملبہ ہٹائیں تو یہ بھی پتہ چلے گا کہ تیسری دنیا کو ان مقبول رہنماؤں کا قبرستان کیوں بنا دیا گیا، جنہوں نے مٹی کی خوشبو محسوس کی۔ اس ملبے پر کھڑے ہو کر معصوم بچوں کی آوازیں سنی جا سکیں تو یہ بھی معلوم ہو گا کہ تیسری دنیا میں حکومتیں بنتی اور گرتی کیسے ہیں۔ قرضہ لینے سے کوئی آسمان نہیں گرے گا۔ کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹے گا۔ صرف غریبوں کی چھتیں گریں گی اور دیواریں ٹوٹیں گی۔ غربت کے آقاؤں سے معاملات طے کرنا کوئی آسان نہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت سیاست میں ایک تجربے سے گزرے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین