• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آ ج کے اخبار کی سُرخی تھی ’’گھبرائیں نہیں حوصلہ رکھیں‘‘ پڑھ کر دل دھک سے بیٹھ گیا بڑی مشکل سے حوصلہ پکڑا اور پوری خبر پڑھنے کی ہمت کی تو ہمارے وزیراعظم عمران خان نے فرمایا آئی ایم ایف کے پاس جانے سے قیامت نہیں آجاتی ۔قوم پر ایسا وقت آتاہے اُس کو قربانی دینا پڑتی ہے ۔اس بحران سے نکلنے کے لئے 6ماہ درکار ہیں پھر اثرات نظر آئیں گے ۔اس خبر کو پڑھ کر اندازہ ہوا ہم آئی ایم ایف کے پاس جانے کی صرف تیاری کررہے تھے کہ یاروں نے ڈالرز سے کھلواڑشروع کردیا اور ایک ہی رات میں 10روپے بڑھادیئے ۔اورمزید 5روپے بڑھنے کی بھی نوید سنائی گئی۔ یعنی فی الحال 135اور 140کے درمیان ڈالر ملے گا ۔اُسی لحاظ سے دنیا بھر کی کرنسیاں 25فیصد مہنگی ہوگئیں ۔میڈیا پر عمران خان کا وہ ماضی کا کیسٹ بھی وائرل تھا کہ جس میں انہوں نے عوام کو خاص طور پر متوجہ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس میری لاش پر سے گزر کر جانا ہوگا ۔ویسے تو پہلے ہفتے ہی ہمارے وزیر خزانہ اسد عمر نے دبے دبے لفظوں میںآئی ایم ایف جانے کی صرف بات چھیڑی تھی تو ہلکی پھلکی تردید کرکے معاملہ ٹھنڈا کردیاگیاتھا ۔ورنہ تو پہلے ہی ہفتے ڈالر کی کھلواڑ شروع ہوجاتی مگر صرف 6ہفتوں میں عوام پر اُوپر تلے مہنگائی کی بمبار ی کی جارہی ہے ۔جس میں چینی کی قیمت میں (جو پہلے ہی گوداموں میں کثرت سے پڑی ہوئی تھی)3روپے کلو خودبخود اضافہ کرکے عوام کو حیران کردیاگیا پھرگیس ،پیٹرول ،ڈیزل جو عالمی منڈی میں آدھے سے بھی کم نرخ پر دستیاب ہیں اضافہ کرکے قوم کے خواب چکنا چور کر دیئے گئے ۔تمام سبسڈی ختم کرکے اُن سب کا بوجھ عوام پر ڈال کر وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔ماضی میں بھی وہ سیاست دان جو اب گھر بیٹھے ہیں اس قسم کے وعدے وعید کرکے ووٹ حاصل کرتے رہے کوئی سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرتاتو کوئی ’ میں نواز شریف کو نہیں چھوڑونگا‘ ،للکارتا رہا اور پھر انہی کے ساتھ خوش گپیا ںکرتا رہا ۔اب ضمنی انتخابات میں سب یکجان ہو کر پی ٹی آئی کے امیداوار کے خلاف ڈٹ چکے ہیں ۔جن میں مولانا فضل الرحمٰن کی بھر پور کوششیں بالآخر کام آگئیں اور اب پلڑا یک دم حزب اختلاف کے حق میں جھک چکا ہے اورپے درپے اقدامات سے عوام کا موڈ بھی اب جارحانہ ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیروں کی غلطیوںسے قوم کا اعتماد ہلتا نظر آرہا ہے ۔اب کوئی ایک مزید غلطی حکومت کے لئے سانحہ سے کم نہیں ہوگی اورسب سے بڑی غلطی وہ بلند دعوے ہیںجو اربوں ،کھربوں کے ڈالرکے ثبوت ہونے کے باوجود آج تک ایک ٹکا بھی وصول نہیں ہوسکا ، آج ہی چیئر مین نیب کا بیان ہےکہ ہم پاکستان کو کرپشن سے پاک ملک بناکر چھوڑینگے ۔مگر ہمارا ماضی ہمیںیہ بتاتا ہے کہ 71سال سے قوم کو مل کر لوٹنے والوں سے کوئی نہیںجیتا ہے ۔ اپوزیشن اتنا شور مچا رہی ہےکوئی اُن سے پوچھے کہ نیب کا چیئر مین کس نے بنایا ہے وہ تو خود حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی مشترکہ ناموں کی منظوری سے وجود میں آتا ہے ۔سینکڑوں مقدمات بنے مگر قانونی سقم کی وجہ سے لوگ8 آٹھ سال جیلوں میں رہ کر چھوٹ گئے یا پھر ملک بدر ہوکر واپس آگئے ۔کیا ایک پیسہ بھی اُن سے وصول ہوا۔ سب تھک ہار کر خاموش ہوگئے ۔آج بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔جب تک ہمارا نظام نہیں بدلے گا یہ قانونی سقم اُن کو بچاتی رہے گی۔سب سے پہلے ہماری پولیس کا نظام جدید تقاضوں پر لانا ہوگا ۔جیسے ہم نے ہائی ویز پولیس کا نظام تبدیل کرکے کامیابی حاصل کی ۔آپ ہائی وے پر لائن میں چلتے ہیں تمام قوانین کی پابندیاں کرتے ہیں کیونکہ ہم نے اُن کی تنخواہیں بڑھاکر صرف8گھنٹے ڈیوٹیاں کردیں۔اور چالان پر کمیشن دے کر اُن کا حوصلہ بڑھایا ۔لہٰذا اب وہ رشوت کا سوچنا بھی گناہ سمجھتے ہیں اور کوئی چالان نہیں چھوڑتے خواہ گاڑی میں کتنی ہی بڑی شخصیت ہو ۔یور پ کی طرح مرعوب نہیں ہوتے تو پھر ہم اس کی ابتدا ء اندرون شہر کی پولیس سے کیوں نہیں کرتے ۔اُن کی بھی تنخواہیں اور مراعات اور ڈیوٹی اوقات کار جدید طریقوں سے ہم آہنگ کردیں، اصلاحات کی طرف قدم تو بڑھائیں ۔پولیس کےنظام کو دنیا بھر میں اولین سبقت دی جاتی ہیں مگر ہم نے ان کے لئے آج تک فرسودہ نظام نافذ کررکھا ہے۔بھلا اٹھارہ 18گھنٹے ایک تھانے میں ڈیوٹی دے کر وہ کیسے معاشرے میں رہ سکتا ہے جب تک اُن کی ڈیوٹی 8گھنٹے ، اچھی تنخواہیں رہائش ،علاج معالجہ کی سہولت جیسی فو ج میں دی جاتی ہیں نہ دی جائیں ۔وہی نظام پولیس میں بھی لانے سے خوش گوار تبدیلی ممکن ہے ورنہ کرپشن سے پاک پاکستان کا خواب صرف خواب ہی رہے گا ۔آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائےچین سے بات کرنی چاہئے وہ بھی اب منصوبوں میں بڑی تبدیلیاں لانے کے لئے تیار ہے ۔سعودیہ ،قطر ،یواے ای اور روس سے ایڈوانس لے کر سی پیک کو متحرک کرائیں ۔100ارب ڈالرز سے زائد حصہ دار مل جائیں گے نہ آئی ایم ایف کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی قرضہ کی ضرورت پڑے گی ۔حکمت سے کام لیں دنیا کی نظریں سی پیک پر لگی ہیں ۔فیڈریشن اور چیمبرز کے صدور سے مشورہ کریں۔

تازہ ترین