• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک ہی دن میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی بدترین گراوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔تحریک انصاف کی نئی حکومت کے صرف ڈیڑھ ماہ میں ہی عوام کاجینا دوبھر ہوگیا۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسی معاشی پالیسی اپنا ئے کہ جس سے مہنگائی میں کمی ہوسکے اورعام آدمی کوریلیف مل سکے۔ دن بدن مہنگائی،بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور غریب عوام کو کسی قسم کاکوئی ریلیف میسر نہیں ہے۔امریکی ڈالر134روپے تک تجاوز کرنے سے ملک میں مہنگائی کاگراف مزید بڑھ جائے گااور اس کاپاکستانی معیشت پر برااثر پڑے گا۔ صرف چند گھنٹوں میں ہی اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی سے سرمایہ کاروں کے238ارب ڈوب گئے ہیں جبکہ ڈالر کی قیمت میں۹روپے سے زائد کااضافہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے پاس نہ کوئی معاشی ایجنڈا ہے اور نہ ہی وژن نام کی کوئی چیز ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لاکرعوام کی زندگی میں آسودگی لانے کے دعویدارناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ قوم کونئی حکومت سے کئی توقعات وابستہ ہیں۔ماضی کے حکمرانوں نے عوام کومہنگائی،بیروزگاری اور غربت کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔اگر تحریک انصاف کی حکومت بھی ان کے نقش قدم پر چلتی رہی تو حقیقی تبدیلی کاخواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ ملک میں معاشی بحران سنگین شکل اختیار کرتاجارہا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر قومی اسمبلی میں خوشنماتقریرکرکے عوام کودلاسہ تو دیتے ہیں مگر عملاً وہ بھی سابقہ وزرائے خزانہ کی پالیسیوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔موجودہ حکومت آئی ایم ایف، ورلڈ بنک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیک رہی ہے۔ پاکستان کو اس وقت معاشی لحاظ سے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ محض دکھاوے اور دعوئوں کی بجائے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔آئی ایم ایف اور ورلڈبنک سے چھٹکارا حاصل کیاجائے۔ماضی میں بھی عالمی اداروں سے قرض لے کر ملکی معاملات چلائے جاتے رہے جس کانتیجہ یہ نکلاہے کہ آج ہر پاکستانی ایک لاکھ30ہزارکامقروض ہوچکا ہے۔اب اگر تحریک انصاف نے بھی عالمی اداروں سے قرض لینے کے لیے کشکول پکڑلیاتوملکی معیشت مزید تباہی کاشکارہوجائے گی۔ان حالات میں وطن عزیز میں۳۵ارب روپے کے بے نامی اکاؤنٹس کی نشاندہی تشویش ناک امر ہے۔ کرپٹ عناصر بینک افسروں کی ملی بھگت سے کالے دھن کو چھپانے کے لیے کروڑوں روپے عام افراد کے اکاؤنٹس میں منتقل کررہے ہیں،اس حوالے سے آئے روزکوئی نہ کوئی چونکا دینے والی خبر میڈیا میں آرہی ہے۔یہ ایک انتہائی مضبوط مافیا ہے جس کے خلاف سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ ملک میں کرپشن کی انتہاہوچکی ہے۔روزانہ12ارب روپے کی کرپشن لمحہ فکریہ ہے۔ملک وقوم کو لوٹنے والوں کے خلاف کارروائی کرکے ان کومنطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہئے۔اگر موجودہ حکومت بدعنوان افراد کا قلع قمع کرتے ہوئے کرپشن کو مکمل طورپر روک لے توملک میں خوشحالی آسکتی ہے۔ بدقسمتی سے انسداد کرپشن کے اداروں کے اندر بھی کرپٹ عناصر موجود ہیں اور وہی قانونی کمزوریوں کافائدہ اٹھاتے ہوئے مجرمان کو فرار کی راہ دکھاتے ہیں۔ایسی کالی بھیڑوں کو بھی گرفت میں لانا ہوگا۔ ملک وقوم اس وقت مختلف چیلنجزکاسامنا کررہے ہیں۔اوپر سے لے کر نیچے تک رشوت خوری کابازار گرم ہے۔عوام کو اپنے جائز کام کروانے کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔کرپٹ افسران کی لوٹ مار کی وجہ سے سرکاری اداروں کا بہت ہی براحال ہے۔عوام کو تنگ کرنے اور رشوت لینے کے لیے چندگھنٹوں کے کام پر کئی کئی دن اورہفتے لگادیئے جاتے ہیں،ان پر چیک اینڈ بیلنس کاکوئی سسٹم موجود نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان قوم سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل کریں۔ان کے پاس اب حکومت بھی ہے اوراختیارات بھی ۔حکومتی وزراء اپنی کارکردگی کو موثر بنائیں تب ہی جاکر سسٹم میں بہتری آئے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے 2018کے الیکشن سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں حقیقی تبدیلی لائیں گے اور غریب عوام کوریلیف فراہم کیا جائے گا،مگر گزشتہ دو ماہ میں ٹیکسوں کی بھرمار،مہنگائی اور غربت کے علاوہ پاکستانی عوام کو کچھ نہیں ملا۔برطانیہ اور امارات میں بھی پاکستانیوں کی نئی10ہزار جائیدادوں کے انکشاف پر قوم میں تشویش پائی جاتی ہے۔ملکی خزانے کونقصان پہنچانے والے اور ٹیکس چور قومی مجرم ہیں۔بیرون ملک غیر قانونی طورپر جائیدادیں بنانے والے کسی بھی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں،ان کی جائیدادوں کو ضبط کیاجانا چاہئے۔ پارلیمنٹ میں ایسی قانون سازی کی جائے جس سے منی لانڈرنگ کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہو۔ برطانیہ اور امارات میں بے نقاب ہونے والی جائیدادوں کی تعداد اس سے کئی گنازیادہ ہوسکتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپٹ اور منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کو غیر قانونی ذرائع بتانے والے سرکاری افسران کے خلاف بھی کارروائی کویقینی بنایاجائے۔پانامالیکس میں بے نقاب ہونے والے دیگر پاکستانیوں اورقومی خزانہ لوٹنے والوں کا کڑااحتساب ہونا چاہئے۔وفاقی وزیر خزانہ کا آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لیے مذاکرات کی بات کرنااس بات کاثبوت ہے کہ تحریک انصاف نے انتخابات سے قبل جو وعدے کیے تھے وہ اب اس سے منحرف کر چکی ہے۔پی ٹی آئی کے اقتدار میں آتے ہی ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔حکومت عوام کی مشکلات کم کرنے کی بجائے ان میں مسلسل اضافے کا سبب بنی ہوئی ہے ۔موجودہ حکمرانوں میں معاملات کو حل کرنے کے لیے فہم وفراست کی کمی نظر آتی ہے۔ وفاقی کابینہ میں دن بدن اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔ جس ملک کی نصف آبادی پہلے ہی سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو اور قومی خزانہ خالی ہونے کاحکومت واویلابھی کرتی ہو،ایسے میں وزراء کی فوج ظفر موج قومی خزانے پر بھاری بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ سادگی اورکفایت شعاری محض بیانات تک ہی محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ سنجیدگی سے اس پر عمل درآمد بھی کیاجانا چاہئے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ دبئی میں بھی 3550 پاکستانیوں کی پراپر ٹیز کی لسٹ ایف آئی اے کو ملنے کی اطلاعات منظرعام پر آئی ہیں۔ غیر قانونی طور پر بیرون ممالک جائید ادیں بنانے والے ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں ۔ قومی خزانہ لوٹ کر اور ٹیکس چوری کر کے دبئی سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں جائیدادیں بنانے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے اور اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی دباؤ قبول نہ کیا جائے ۔ ملک میں عوام کی محرومیوں کی اصل وجہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ کرپشن ہے ۔ اربوں کھربوں روپے لوٹنے والے پلی بارگین کرکے چھوٹ جاتے ہیں جبکہ غریب کو ناحق کئی کئی برس تک پابند سلاسل رکھاجاتاہے جوکہ فرسودہ نظام کاشاخسانہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پربڑاسوالیہ نشان ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین