• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مہنگائی کرنا مجبوری ہے‘اس کا فوری علاج ممکن نہیں، تبدیلی ایک سال بعد نظرآئے گی ،ہمارے اقدامات کے ثمرات100 دن میں نظر آئیں گے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر ڈیڑھ ماہ کے رہ گئےہیں،تنخواہ دینے کے پیسے نہیں،ملک چلانے کیلئے28ارب ڈالرکاقرضہ درکار ہے۔ عزیز ہم وطنو! آپ نے پھرملاحظہ فرمایا کہ کس طرح اور کن شرائط پر آئی ایم ایف سے معاملات طے کئے جارہے ہیں۔ان دنوں گلی کوچوں تک میں ایک معصومانہ سوال زیر گردش ہے ،کہ جب آپ آئی ایم ایف پر تبرا بھیجتے ہوئے کشکول نہ اُٹھانے کا اعلان کررہے تھے تو کیا آپ کے علم میں نہیں تھا کہ ملک اقتصادی طور پرکومے میں ہے،اور اگر علم نہیں تھا تو کیا ایسی لاعلم قیادت ایک ایٹمی پاکستان کی نگہبان ہوسکتی ہے۔اور اگر علم میں تھا ،جو یقیناََ تھا اور جس کا آپ اکثر نہ صرف ذکر کرتے تھے،بلکہ انہی بیماریوں کے سبب کومے میں موجود اقتصادی پاکستان کا علاج بھی تشخیص کررہے تھے۔ تو اب اگر آپ سابقہ حکومتوں کے ہی فارمولے اپنانے لگے ہیں بلکہ اُس میں عوام کو مزید نڈھال بنانےکیلئے شدت بھی لارہے ہیں،تو پھر ،وہ تبدیلی کیا تھی جس کا وعدہ22کروڑ عوام سے کیا گیا ۔کیا یہ تبدیلی وزارت عظمیٰ کے سہاگن پر براجمان ہونے کی خاطر محض ن لیگ کی تبدیلی ہی تھی؟؟۔بنابریں کیا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے تھےکہ آئی ایم ایف کن شرائط پر یہ قرضے دےگا۔ کیا اس سے اسلامی جمہوری اور ایٹمی پاکستا ن ’اغیار ‘کے روبرو’ رکوع‘سے حالت ’سجدے ‘میں نہیں چلاجائیگا،نیز کیازندہ درگور غریب عوام بے گوروکفن نہیں ہوجائیں گے؟ پلاننگ کمیشن کے گزشتہ سروے کے مطابق پاکستان میں 7 کروڑ 77 لاکھ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔اب مملکت خداداد پاکستان میں ’خط غربت ‘کا پیمانہ بھی عجیب و غریب ہے۔عالمی بینک کے مطابق ہر وہ شخص جس کی روزانہ آمدنی دو ڈالر یا ڈھائی سو روپے سے کم ہے اس کا شمار خط غربت سے نیچے ہوتا ہے لیکن پاکستان میں سو روپے روزانہ کمانے والے کو غریب تصور کیا جاتا ہے ۔ باالفاظ دیگر دنیا 250 روپے سے کم کمانے والے کو غریب کہتی ہے اور پاکستان میں 100 روپے سے کم کمانے والا غریب تصور ہوتا ہے۔اب 7اکتوبر کے اخبارات کا ایک حوالہ سامنے رکھتے ہیں،جس سے بہ خوبی اندازہ ہوجائیگاکہ دنیا جس تیزی سے رواں ہے،پیارا پاکستان اس دوڑ میں شامل ہی نہیں ہے! عالمی اقتصادی فورم کی نئی ماہانہ رپورٹ کے مطابق پہلی بار دنیا کی نصف آ بادی کا شمار امیر یا مڈل کلاس گھرانوں میں ہونے لگا ہے۔دس ہزار سال میں پہلی باردنیا میں غریبوں کی تعداد کم ہونے لگی۔دنیا کی آبادی کا پچاس فیصد یعنی 3 ارب 80 کروڑ افراد کا شمار مڈل کلاس یا امیر خاندانوں میں ہونے لگا ہے ۔ ہر سیکنڈ میں پانچ لوگ مڈل کلاس گھرانے میں شامل ہو رہے ہیں۔ ماہرین نے اپنی اس رپورٹ میں 188 ممالک کا سروے کیا۔ مڈل کلاس میں داخل ہونے والے ہر دس میں سے نو کا تعلق چین، بھارت، جنوب اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک(یعنی ہمارے پڑوسیوں اور آس پاس کے ممالک )سے ہے۔عالمی اقتصادی فورم کے اعدادو شمار کے مطابق 2030 تک چین اور بھارت میں مڈل کلاس مارکیٹ 14اعشاریہ ایک کھرب ڈالر اور 12اعشاریہ 3کھرب جبکہ امریکہ میں یہ 15اعشاریہ 9کھرب ڈالر تک ہوگی‘‘۔

یہ رپورٹ ایسی نہیں کہ یکا یک کسی کو حیرت کے سمندر میں لے جا چھوڑے۔ہر دردمند پاکستانی یہ دیکھ رہا تھا کہ پاکستان کو جن خود ساختہ نظریات کے تحت چلانے کی کوشش کی جارہی ہے،یہ نظریات ملک اور عوام کو کس انجام سے دوچار کرنے لگے ہیں۔بھارت کی تیزی سے ترقی بھی کوئی معجزہ نہیں،جب بھارتی وزیراعظم سوفٹ وئیر و دیگر کامیاب اقتصادی دعوے کرتے تھے ،تو ہمار ےہاں کے مگر مچھ حقائق سے نظریں چُرائے ایسے اعلانات کا مذاق اُڑایا کرتے تھے،اب بھی وہ ایسا ہی کررہے ہیں ۔لیکن آج عوام کے بوجھ تلے دبا ہمارا ازلی دشمن بھارت اصل معنوں میں ایشیا ٹائیگر بننے جارہا ہے،اور ہم کاغذی شیر ،مگر اب بھی اپنی خوش فہمیوں سے نکلنے کیلئے تیار نہیں۔نئے پاکستان کا کہنا ہے کہ عوام مہنگائی پر مہنگائی برداشت کرتے جائیں،اور عوام ثمرات مستقبل میں (اگرزندہ رہےتو) دیکھ لیں گے۔ نگران حکومت کے وقت ملک میں غربت کی شرح کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان میں 52.23 فیصد افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، پختونخوا میں یہ شرح 34.66 ، سندھ میں 33.16 اور پنجاب میں 21.66 فیصد ہے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں، منظرنامہ اس سے بھی بدصورت ہے۔تاہم سرکاری رپورٹ کے تنا ظر میں بھی یہ ظاہر اور باہر ہے کہ مہنگائی کا حالیہ ’سونامی‘غریب عوام کی کیا حالت بنادےگا!لیکن ہمارے نئے پاکستان کےنئے بادشاہ اگر نہ جانے تو کیا! کہ بقول اُستاد میر۔

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

روزنامہ جنگ میں شائع ایک خبر میں معروف نیورولوجسٹ پروفیسر واسع شاکر اور ڈاکٹر عبدالمالک کا کہناہے کہ پاکستان میں میں ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد ذہنی امراض میں مبتلا ہیں ۔ جن کی وجوہات میں معاشی تنگی ،امن وامان کی مخدوش صورتحال ،پریشانی ،روزگار کا نہ ہونا شامل ہیں ۔ اب نئے پاکستان میں ایک طرف (خدانخواستہ )اگر ذہنی مریضوں کی تعداد میں تشویشناک اضافے کا خدشہ ہے ،تو دوسری طرف ہر موذی مرض میںپہلے سے ہی ہم دنیا میں ریکارڈ ہولڈرز ہیں۔لہذا تحریک انصاف حکومت کے حالیہ ’منصفانہ‘ اقدامات سے نئے پاکستان کا اصل چہرہ خدا نہ کرے کہ ایسا ہی ہو، جیسا کہ بیکل اتساہی کہہ رہے ہیں۔

بیچ سڑک اک لاش پڑی تھی اور یہ لکھا تھا

بھوک میں زہریلی روٹی بھی میٹھی لگتی ہے

تازہ ترین