• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز پیشتر کامران شاہد کے ٹی وی پروگرام میں پولنگ کے دوران لاہور کی طالبات نے مسلم لیگ ن کے حق میں78فیصد ،پی ٹی آئی کے لئے28فیصد اور پیپلز پارٹی کے لئے ایک فیصد ”ووٹ“ ڈالے تو پی ٹی آئی کے ایک دوست نے میرے نام اپنے مسیج میں اس پولی کو جعلی قرار دیا، میں نے اسے کہا کہ چند روز انتظار کرلو پنجاب کے کچھ شہروں میں ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں ان میں جھوٹ سچ سب کچھ سامنے آجائے گا اور وہ سامنے آگیا ہے، مسلم لیگ (ن) ان شہروں میں”سویپ“ کرگئی ہے۔ دو نشستوں کے علاوہ باقی تمام نشستوں پر مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ یہ نتائج ان لوگوں کے لئے حیران کن ہیں جن کے تجزئیے ان کی خواہشات کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ ان کے لئے نہیں جو عوامی رابطے میں رہتے ہیں ۔ایک خیال بہت عام تھا اور وہ یہ کہ پی پی پی اور ق لیگ کا انتخابی اتحاد ن لیگ کے لئے”صف شکن“ ثابت ہوا مگر یہ خیال بھی”خیال خام“ ثابت ہوا۔ ان دونوں جماعتوں کے مشترکہ امیدوار خاصی ”افسوسناک“ شکست سے دو چار ہوئے۔ سو اب کیا فرماتے ہیں مفکران کرام بیچ اس مسئلے کے؟
آج صبح برادرم عرفان صدیقی سے فون پر بات ہوئی وہ ان دنوں دوبئی میں ہیں۔ وہ میری طرح انٹ شنٹ باتیں نہیں لکھتے۔ ان کے پاس پورا”ڈیٹا“ ہوتا ہے اور وہ مسکت دلائل سے بات کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ ان کی یا کسی اور کی سیاسی سوجھ بوجھ مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ مجھ میں اس نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں لہٰذا ضمنی انتخابات کے حوالے سے آپ عرفان صدیقی اور ان کے علاوہ دوسرے لکھنے والوں کے کالموں کا انتظار کریں۔ اس دوران وقت گزاری کے لئے میں آپ سے گپ شپ کرتا ہوں۔گپ شپ سے یاد آیا کہ بچپن میں ایک پہیلی ہم بوجھا کرتے تھے، سنو گپ شپ، ”ناؤ میں ندی ڈوب چلی“ ندی میں تھوڑا پانی ہوتا ہے لہٰذا یہ سونامی تو کیا کناروں سے اوپر بھی نہیں جاسکتی، سونامی کے لئے ٹھاٹے مارتا ہوا سمندر درکار ہوتا ہے۔ ایک ضمنی حلقے میں سونامی لانے کا ایک دعویدار بھی امیدوار تھا مگر سونامی کا رخ دوسری طرف تھا ،سو اس بار ق لیگ اور پی پی پی کی ناؤ بھی ا نتخابات کی ندی میں ڈوب گئی اور ن لیگ کنارے تک پہنچ گئی، سونامی نے بھی اپنے چاہنے والے کو دور سے سلام کیا اور کنی کترا کر کسی دوسری طرف نکل گئی۔ یہ ”معشوق“ ہوتے ہی بے وفا ہیں۔
سیاستدانوں کے بارے میں میری رائے ہے کہ وہ چٹے ان پڑھ بھی ہوں تو بھی پڑھے لکھوں سے زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں مگر اس دفعہ پی پی پی اور ق لیگ نے کیا سوچ کر ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کیا۔ یہ بات مجھے بالکل سمجھ نہیں آرہی۔ پیپلز پارٹی کی ساڑھے چار سالہ کارکردگی صفر ہے، عوام اس کی پالیسیوں سے ”نکو نک“ آئے ہوئے ہیں، نہ گیس، نہ بجلی، نہ ٹرین، نہ جہاز، مہنگائی ہی مہنگائی، رسوائی ہی رسوائی۔ دوسری طرف ق لیگ آمریت کا بوجھ کاندھوں پر اٹھائے ہوئے اور یہ دونوں آپس میں مسلم لیگ(ن) کے خلاف مشترکہ امیدوار کھڑے کرتے ہیں اور یوں ان کے امیدوار کو”ورثے“ میں دونوں جماعتوں کی بدنامیاں ملتی ہیں۔ امیدوار اس کے سیاسی ددھیال اور سیاسی ننھیال دونوں ایک جیسے اس بچارے کو ووٹ کہاں سے ملنا تھے؟ کوئی ہجڑہ دس شادیاں بھی کرے اس کے ہاں اولاد نہیں ہوگی۔ اب اگر وہ اپنی اس تہی دامنی کا الزام دوسروں پر دھرنا شروع کردے تو اس کی کون سنے گا؟ چنانچہ ان دونوں جماعتوں کے مشترکہ امیدواروں سے اگر ان کی جماعتیں ہار جیت کا حساب پوچھیں گی تو وہ ترت جواب دیں گے”ہمیں دیا کیا تھا، جس کا حساب لینے آگئے ہو؟“ میں چودھری شجاعت حسین اور صدر آصف علی زرداری کی سیاسی دوربینی کا بہت قائل ہوں، یہ سیاسی شطرنج کے بہترین کھلاڑی ہیں مگر اس دفعہ یہ غلط چال چل گئے…صدر زرداری نے تو اپنے ماضی کی بہترین سیاسی چالوں کی سب شہرت خاک میں ملادی جب انہوں نے پنجا ب میں پی پی پی کے جیالوں کی قیادت کا تاج منظور وٹو کے سر پر سجادیا۔ وٹوصاحب بھی سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں مگر وہ بچارے کیا کرتے، جیالے تو ان کے سائے سے بھی بچتے ہیں ، آصف ہاشمی نے اپنے اس نوزائیدہ قائد کے ساتھ جو جو سلوک کیا وہ اللہ کسی قائد کے ساتھ نہ کرے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے وہی فارسی والی سوال یعنی پس چہ باید کرد؟ تو کرنا کیا ہے صرف جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام لگانا ہے ،شفیق الرحمن کی لکھی اور شاہ کی پیروڈی میں نادر شاہ اپنے وزیر سے کہتا ہے کہ ہم ہندوستان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اس کی وجوہات تیار کرو، سواب کرنے کا کام یہ ہے کہ ن لیگ کی دھاندلی کی تفصیلات تیار کریں اور الیکشن کمیشن کو بھجوادیں اگر وہاں سے بھی فیصلہ موافقت میں نہ آئے تو الیکشن کمیشن پر بھی دھاندلی کا الزام لگانے میں کیا حرج ہے؟
یہ ساری باتیں تو میں نے ”دل پشوری“ کے لئے کی ہیں، سنجیدہ بات یہ ہے کہ ہارنے والوں کو اپنی سیاسی حکمت عملی کی ناکامی کا اعتراف کرنا چاہئے اور جیتنے والی جماعت کی اس محنت کو تسلیم کرنا چاہئے جو گزشتہ ساڑھے چار برس کے عرصے میں اس نے عوامی خدمت کے حوالے سے کی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی کارکردگی دوسرے صوبوں کے لئے رول ماڈل کی حیثیت اختیار کرچکی ہے ان کے کچھ فیصلوں سے اختلاف کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں جن میں سے ا یک میں بھی ہوں اور برملا اس کا اظہار کرتا رہا ہوں لیکن ان کی نیک نیتی پر کبھی کسی نے شبہ نہیں کیا، ان کی حکومت کا کوئی میگا سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے سب منصوبے ٹرانسپلانٹ رکھے اور اس کے علاوہ معاشرے کے مافیا گروپوں کو نکیل دینے کی کوشش کی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئے۔ انہوں نے قبضہ گروپوں سے اربوں روپے کی سرکاری زمین وا گزار کی اور اس رقم کو ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیا۔ عوام آنکھیں رکھتے ہیں۔ ووٹ ڈالتے وقت یہ سب کچھ ان کے سامنے تھا۔ اس کے علاوہ حریفوں کو یہ بات بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ن لیگ نے انتخابی مہم بھی بہت سائنسی طریقے سے چلائی۔ اس کے کارکن پوری طرح ”چارجڈ“ تھے ، اس جماعت کے ایم پی ایز، ایم این ایز اور ٹکٹ ہولڈرز بھی پوری طرح سرگرم عمل اور یک سو نظر آئے۔ حمزہ شہباز نے مختلف شہروں کے طوفانی دورے کئے اور یوں انتخابی مہم کو تیز سے تیز تر کرنے میں معاون ثابت ہوئے۔ سو میرے نزدیک یہ سب باتیں ن لیگ کی شاندار کامیابی کا باعث بنی ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ جیتنے والی جماعت اب اپنی جیت کا جشن گہری نیند کی صورت میں منائے۔ اب اسے پہلے سے زیادہ چوکس رہنے اور عوام اور کارکنوں سے مسلسل رابطہ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے حریف شکست کے تازیانے سے یقینا بلبلا اٹھے ہوں گے اور یوں آئندہ وہ پہلے سے زیادہ تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔
تازہ ترین