• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی۔۔۔جس جماعت نے اس ملک کی رعایا کو عوام بنایا وہ وقت کے ساتھ یہ بھولتی نظر آتی ہے کہ سیاسی جماعت کا کام محض عوامی حمایت سے اقتدار حاصل کرنا نہیں بلکہ ان کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ و ہ جن نظریات پر یقین رکھتی ہیں اور جن پالیسیوں کا اعلان اپنے انتخابی منشور میں کرتی ہیں، ان پر عملدرآمد کے لئے اپنے سیاسی ورکرز اور رہنماؤں کی تربیت کا فریضہ بھی انجام دیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاسی پارٹیاں فوج کی طرح منظم تو نہیں کی جا سکتیں لیکن تنظیم سازی کی ضرورت کو درگزر کرنا بھی درست نہ ہو گا ۔ ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ سیاسی جماعتیں ملک میں موجود صورتحال کا تجزیہ پیش کرتی ہیں اور عوام کی رہنمائی کرنے کے لئے راستہ کا تعین بھی کرتی ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کا المیہ یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کوحالات کے جبر سے عبارت کر کے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ۔ ان کا موقف یہ رہا ہے کہ انہیں بہت قربانیاں دینا پڑیں اور انتہائی نامساعد حالات میں حکمرانی کرنا پڑی اس لئے مجبوراً اپنے نظریات پر سمجھوتہ کرنا پڑا۔ یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت سہی کہ جمہوریت کے لئے جتنی قربانیاں اس جماعت نے دی ہیں پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کسی اور جماعت نے دی ہوں حتیٰ کہ اس نے اپنے لیڈرز کی قربانی بھی دی جس کے نتیجے میں پارٹی کو اپنی قیادت کی سیاسی بصیرت سے محروم ہونا پڑا جو کسی بھی جماعت کے لئے برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ پاکستان پیپلز پار ٹی کو یہ صدمہ دو مرتبہ اٹھانا پڑا۔ یہ بھی درست کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی اور اس نے اسے کمزور کرنے کی ہر ممکن کو شش کی۔ اصغر خان کیس کے بعد شاید ہی کوئی مبصر ہو جو اس سے انکار کر پائے اور یہ سلسلہ شاید آج بھی جاری ہے۔ مگر اس سب کے باوجود میری رائے میں ایک سیاسی جماعت کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان نظریات اور وعدوں پر قائم رہے جو اس کے قیام کی بنیاد بنے۔یہ نہ صرف اس لئے ضروری تھا کیونکہ عوام نے اس جماعت پر اعتماد کیا بلکہ یہ اس قیادت کا قرض بھی ہے ،جس نے ان اصولوں کی خاطر قربانی دی۔
اپنے قیام کے وقت پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا تھا کہ ” آج ظلم کی نشاندہی کرنا جرم بتایا جا رہا ہے، ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا شیوہ ختم ہو رہا ہے۔ سارا معاشرہ لاتعلقی کا شکار ہو تا جا رہا ہے اور اپنے فیصلے دوسروں پر چھوڑ رہا ہے… دل مردہ ہوتے جا رہے ہیں، شہری تمام زیادتیوں کا مقابلہ کرنے سے عاری نظر آتے ہیں۔۔۔ اور وہ خود کچھ کرنے کی بجائے دوسروں سے عمل کی توقع رکھ رہے ہیں۔۔۔ آج بے ایمانی، کرپشن کی حقیقت سے آنکھیں بند کی جارہی ہیں۔۔۔ جہالت پورے ملک پر پھیل رہی ہے اور بطور قوم ہم اپنی راہ سے بھٹک رہے ہیں۔۔۔ محنت کے مقابلے میں خوشامد لوٹ مار اور کرپشن غالب آرہی ہے“ پیپلز پارٹی نے اس صورتحال کامقابلہ کرنے کے لئے جہاد کا اعلان کیا تھا۔ ۔۔ کیا آج پیپلز پارٹی اس جہاد سے دست بردار ہو چکی ہے؟ موجودہ حالات میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی بنانے کے جو مقاصد تھے کیا پارٹی کی موجودہ سیاسی قیادت ان سے آگاہ ہے اوراسے یہ احساس ہے کہ کیا وہ عوام کی توقعات پوری کر سکی جن کی بناء پر 1970 سے 2008تک وہ انہیں منتخب کرتے چلے آرہے ہیں ؟
پارٹی کو اس بات کا احساس نہیں کہ آج پھر وہی صورتحال ہے جس کا تذکرہ اس نے اپنی بنیادی دستاویز میں کیا تھا کہ ” رزق کے وسائل عام نہیں ہیں۔۔۔ امیر امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور غریب غریب تر“۔۔۔کیا قیادت اس بات سے آگاہ ہے کہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل اس کے قائدین نے اپنی ذمہ داری سمجھی تھی جس میں مساواتی جمہوریت یعنی غیر طبقاتی معاشرے کا قیام لازمی قرار دیا گیا تھا؟اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پارٹی کی موجودہ قیادت نے کہیں وہ رویہ تو اختیار نہیں کر لیا جو دوسری پارٹیوں کا ہے؟ وہ بھی اب انتخابات میں کامیابی کی سیاست کر رہے ہیں،شاید ان کے نزدیک اصول اب صرف یہ ہے اس شخص کو ساتھ شامل کر لیا جائے جو اپنے حلقہ انتخاب میں کامیاب ہو سکتا ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی وہ سیاسی جماعت تھی جس کی پہلی حکومت پر اس کے بد ترین ناقدین بھی کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا سکے ، جبکہ آج مخالفین کے مطابق کرپشن اس کے مزاج کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ کیا پارٹی اس الزام سے محض یہ کہہ کر جان چھڑا لے گی کہ ہمارے مخالفین یہ سب کچھ ثابت نہیں کر سکے؟کیا آج کی پیپلز پارٹی اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو اس بات کا حوصلہ فراہم کر سکے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے عوام کو ان کے مسائل سے نجات دلا دے گی۔
کیا وجہ ہے کہ ایک عوامی پارٹی ، صدارتی محل، گورنر ہاؤس تک محدود ہوتی جا رہی ہے؟ کیا موجودہ پارٹی قیاد ت مخالفین کے اس سوال کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہے کہ وفاق کی پارٹی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی غلطیوں کی بناء پر ایک علاقائی پارٹی بنتی جا رہی ہے۔ کیا پاکستان پیپلز پارٹی کا مطمح نظر محض پانچ سال اقتدار کی مدت پوری کرنا رہ گیا ہے؟ کیا اس جماعت کی قیادت ایمانداری سے یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ عوامی توقعات پر پورا اتررہی ہے اور کیا عوام کے مسائل حل ہوئے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا پارٹی قیادت آنے والے انتخابات میں اس سوال کا جواب دینے کے لئے تیار ہے کہ مفاہمت کی سیاست مخاصمت کی سیاست سے بہتر سہی لیکن کیا اس نوعیت کی سیاست سے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان تو نہیں پہنچ چکا؟ پارٹی کی ماضی کی قیادت کو تاریخ، سیاست اور فلسفہ سمیت جن دیگر امور پر عبور حاصل تھا وہ موجودہ قیادت میں کس حد تک موجود ہے، اس سوا ل کا جواب بھی آنے والے دنوں کے لئے بہت اہم ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی جنگ میں نظریات ، سیاسی کارکن اور پارٹی تنظیم ہی اسلحہ کا درجہ رکھتی ہے۔ کیا 1970کے مقابلے میں آج پارٹی اس اسلحہ سے بہتر لیس ہے؟
ایسے بہت سے اور سوالات بھی میرے ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت چڑ کر اس کالم کو پرے پھینک کر کہہ سکتی ہے کہ میں بھی بک گیا۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں کس کے ہاتھوں بک رہا ہوں؟ پارٹیاں تو سب ایک جیسی ہیں، سب کا فلسفہ اقتدار ہے۔۔۔ میں تو بکا ہوں اس ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں جس نے پاکستان کے عوام سے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ پیپلز پارٹی ان کی زندگیوں کو بدل دے گی اور جس نے پینتالیس سا ل قبل ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان اس انداز میں کیا تھا کہ” آج پاکستان ایک غربت گاہ بن گیا ہے ،مظالم کا اڈہ اور معاشی اور سماجی نا انصافی کا شکار ملک ۔ ہم سب سے کم تعلیم یافتہ، بیمار قوم ہیں۔ ہم کو اس کا علاج کرنا ہے ۔ نئی پارٹی بنانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم کو اصل پاکستان بنانا ہے اور یہ نیاملک انسانیت کے اعلیٰ معیار اور روایات کا ملک ہوگا جہاں پر استحصالی طبقوں کی بد دیانتی کا علاج کرنا ہے“۔
تازہ ترین