• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ … مریم فیصل
کیا کرے گا برطانیہ اگر بنا کسی ڈیل کے یورپ سے اخراج ہو گیا ۔ یہی باتیں ہیں جو ہم برطانیہ کی فضاؤں میں بھی محسوس کر سکتے ہیں ۔ بریگزٹ کا فیصلہ تو عوام نے دے دیا ہے بس اب یونین اور برطانیہ کو ایک ڈیل فائنل کرنی ہے کہ جس کی بدولت فریقین کو بعد میں کسی تناو کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ یہ سہولت توصرف یونین کے ممبر ممالک کو ہی حاصل ہے کہ وہ تجارت، نقل و حرکت اور شہریوں کے حقوق سمیت مام معامالات میں بنا کسی شرائط کے ایک طرح سے آزاد ہوتے ہیں لیکن جو یونین کے ممبر نہیں ہیں ان کو مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے ۔ اب جبکہ برطانیہ نے یہ فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ یونین سے الگ ہونا ہی ہے تو ان تمام پابندیوں سے بچنے کے لئے ایک ڈیل کرنا ہے جس سے برطانیہ تجارتی شہری امور کو بنا کسی تعطل کے چلا سکےورنہ دوسری صورت میں اگر کوئی ڈیل طے نہیں پاتی تو پھر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کے تحت برطانیہ کو تجارتی معاملات چلانے ہوں گےجس کا مطلب ہو گا کسٹم میں اشیاء کی سخت چیکنک، ٹیریف اور سفر کرنے والوں کو بارڈر پر لمبی لمبی قطاروں پر لگ کر سخت چیکنگ کا سامنا کر نا پڑے گا ۔ اگر نو ڈیل کے نکتے پر چلتے ہوئے اس کی تفصیلات میں جھانکے تو یہ واضح ہوگا کہ نو ڈیل کی صورت میں برطانیہ کن کن حقوق سے محروم ہو جائے گا ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق تو بہت کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔کیا کچھ ہم گنوائیں گے اس کی شروعات کرتے ہیں نقل و حرکت سے کیونکہ یہ پواینٹ ایسا ہے جو ہر برطانوی اور یونین ممالک کے شہریوں کے ذہینوں پر سوار ہے کہ بریگزٹ کے بعد کیا ہوگا ۔ شروعات کرتے ہیں ڈرائیونگ لائسنس سے ۔جو وہاں سے یہاں اور یہاں سے وہاںذاتی گاڑی میں جاتا آتا رہا ہے اگر کوئی ڈیل نہیں ہوئی توپھر یا تو انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس پرمٹ لینا ہوگا یا پھر اس ملک کا لائسنس لینا ہوگا جو نہ تو فری ہوگا اور اتنا آسان کہ جھٹ پٹ مل جائے ۔ نو ڈیل کی صورت میں آزادانہ نقل و حرکت ، چاہیے وہ کام کرنے کے لئے ہو یا سیر کرنے کے لئے، بارڈر کی لمبی قطاروں میں لگنا اور ویزالینا بھی ہوسکتا ہے ۔ ابھی تو بس پاسپورٹ دکھایا اور نکل گئے اس پار ۔ نقل و حرکت کے علاوہ کمیونیکشن بھی اہم ہے، ابھی بنا کسی رومنگ چارجز کے یونین والے اور یہاں کے برطانوی گھر بیٹھے بیٹھے بات چیت کر لیتے ہیں لیکن اگر نو ڈیل تو پھر مہنگے رومنگ چارجز بل بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں گے ۔ اس کے بعد براڈ کاسٹنگ ہے ابھی تو برطانوی نشریات ادارے آفکام کے قونین کے تحت یونین والے ممالک میں نشریات چلا سکتے ہیں لیکن نو ڈیل کی صورت میں اس ملک کے براڈ کاسٹنگ کے قوانین کو فالو کرنا ہوگا ۔اگر امداد اور فنڈز کی بات کریں تو ابھی تو برطانیہ ملک میں پروجیکٹ کے لئے ای یو کی کوئی بھی گرانٹ آسان شرائط پر حاصل کر سکتا ہے لیکن اگر نو ڈیل تو پھر غیر ممبر کے لئے فنڈز تک رسائی ناممکن ہی ہو جائے گی ۔ صنعت و تجارت کی بات ہو تو سب سے پہلے تو اشیاء کی برآ مد پر بھاری ٹیرف کا آغاز ہو جائے گا جن سے اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ضرور کرنا ہوگا جس کا بوجھ بریگزٹ کرنے والی برطانوی عوام ہی دھوئےگی اور پھر وہاں کے پورٹ کے ذریعے شپنگ کے لئے پہلے سکروٹنی کی پخ بڑھے گی اور پھر چھوٹ کا سرٹیفکیٹ جس کے لئے ممبر ممالک کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔یہ سب پڑھ کر تو قارئین آپ کو لگ رہا ہوگا کہ گویا برطانیہ پر دنیا ہی تنگ ہو جائے گی ۔لیکن کیا ان نکات پر یہاں کے بڑے بڑے قابل دماغوں نے غور نہیں کیا ہوگا اور کیا وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ برطانیہ کی حیثیت کسی ترقی یافتہ ملک کی نہیں ہے اور کیا ان کے پاس اس بات کا حساب موجود نہیں ہوگا کہ برطانیہ ای یو کے لئے سب سے اہم خریدار ہے ۔ وہاں ایسا کیا بک رہا ہے جو برطانیہ نہیں خریدتا اور کس بڑی تعداد میں خریدا گیا ہے ۔ اس کا آسان جواب ہے ایک طرف یونین کے ممالک اور دوسری طرف برطانیہ ۔کیونکہ ای یو کا تجارتی منافع بڑھانے میں برطانیہ کا پلڑا بھاری ہی رہا ہے ۔ تو اب اگر نو ڈیل، تو زیادہ نقصان کس کا ہوگا یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔
تازہ ترین