• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پچھلے دو کالموں میں آپ کو یہودیوں کی عیاری اور مکاری کے بارے میں مثنوی مولانا رومؒ میں بیان کردہ حکایت بتا چکا ہوں۔ یہ حکایت بہت طویل ہے اور قابل مطالعہ بھی ہے مگر میں آج اس کالم میں اس کو مختصر کرکے ختم کرنا چاہتا ہوں کہ آئندہ کچھ ملکی حالات پر بھی لکھ سکوں۔

’’مولانا فرماتے ہیں! افسوس کہ تو نے آدمؑ کے مسجود ہونے کو نہیں سمجھا۔ آخر کو اے ناخلف تو آدمؑ کی اولاد ہے تو کب تک اس ذلت و پستی کو اپنا شرف سمجھے گا۔ کبھی کہتا ہے کہ میں عالم کو فتح کرتا ہوں اس جہاںکو اپنی خودی سے بھر دوں گا اگر جہان پورے کا پورا بھی تیری برف سے ڈھک جائے تب بھی سورج کی گرمی ایک نظر سے اس کو پگھلا دے گی ایسے بوجھ اگر سو ہزار بھی ہوں تو حق کی ایک چنگاری ان کو نیست کرسکتی ہے وہ چاہے تو کسی خیال کو عین حکمت کردے چاہے تو زہر کے پانی کو شربت کردے ویران جگہوں میں خزانے پوشیدہ کردے کانٹے کو گل بنادے اورجسم کو روح کردے بدگمان شخص کو محکم یقین عطا کردے دشمنی کو دوستی میں تبدیل کردے آگ میں ابراہیم ؑ کو پرورش دے روح کو خوف سے سلامتی اور امن بخشے۔

اس سبب اور نتیجہ کے تخیل سے تو میں سودائی ہوجاتا ہوں، دنیا کو محض ایک خیال کی مانند سمجھتا ہوں۔ میں بہت سبب سازی میں سرگرداں رہا۔ اور سبب سوزی کرکے حیران بھی ہوں۔ (مکروفریب نفس کی حد نہیں ہوتی جیسے کہ) جب مکار اور بداعتقاد وزیر نے دین عیسیٰ ؑ میں فساد ڈال دیا۔ تو ایک اور مکر کھیلا۔ وعظ چھوڑ کر اب خلوت نشین ہوگیا۔ اس نے مریدوں کو جدائی اورشوق دیدار کی پریشانی میں ڈال دیا۔ وہ خلوت میں چالیس پچاس دن رہا۔ خلقت اس کے شوق میں اوراس کے فراق اس کے حال، اس کی باتوں اور ا س کے دیدار کی حسرت اور بڑھی۔ سب لوگ اس کی جدائی میں آہ و زاری کر رہے تھے۔ اور وہ تنہائی میں ریاضت سے تباہ ہورہا تھا۔ لوگ کہنے لگے کہ بغیر تیرے ہمیں کوئی روشنی نہیں ملتی۔ جیسے کوئی نابینا بغیر لاٹھی کے ہوجاتا ہے مہربانی کرکے اور خدا کے واسطے اب اس سے زیادہ اپنے سے ہمیں جدا نہ کر ہم بچوں کی طرح ہیں اور تو ہماری دایہ کی طرح ہے۔ ہمارے سروں پر تیرا سایہ کرم ہے وہ بولا کہ میری جان دوستوں سے دور نہیں۔ لیکن خلوت سے باہر آنا دستور نہیں۔ اس پر وہ امیر علماء لوگوں کی سفارش کرنے لگے اور وہ مرید اپنے اصرار پر زور دینے کیلئے رونے لگے۔ کہ اے ہمارے کرم فرما، یہ کیا بدبختی ہمارے لئے ہوئی ہے۔ ہم دین سے بھی اور دل سے بھی یتیم ہوگئے ہیں۔ آپ بہانہ کرتے ہیں اور ہم درد سے سوزدل سے سرد آہیں بھرتے ہیں۔ہمیں تو آپ کی اچھی باتیں سننے کی عادت ہوگئی ہے ہم آپ کی حکمت کا دودھ پی چکے ہیں۔ بہر خدا یہ ظلم ہم پر نہ کیجئے ہم پر مہربانی کیجئے۔ آج کی بات کل پر نہ ٹالئے کیا آپ کے دل کو یہ بات پسند ہے۔ کہ آپ کے بیدل آپ کے بغیر یوں ناکام رہیں خشکی پر مثل مچھلی کے تڑپیں۔ آپ بند اٹھائیں اور نہر سے پانی آنے دیں اور آپ جیسا دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ خدا کے واسطے خلقت کی فریاد رسی کیجئے۔

وہ بولا کہ ہاں اے عشق کی باتیں کرنے والو۔ وعظ اور بیان کو دل و جان سے سننے کی تمہیں جستجو ہے۔ اپنی کمینی حس کے کانوں میں اب روئی ٹھونس لو۔ حس کی قید وبند کو اب اپنی آنکھوں سے بھی باہر نکال دو، یہ سننے کی حس، خود باطن کے کانوں کی روئی بن کر رازوں سے تمہیں دور رکھ رہی ہے۔ اگر تمہارا باطن ہے، تو اس بوجھ کو بھی ہلکا کرنا ہے۔ بے حس اور بے فکر ہو جائو۔ تاکہ ارجعی (یعنی اے نفس مطمٔنہ اپنے رب کی طرف رجوع ہو) کا خطاب سن سکو۔ جب تک تم باتوں اور خیالات میں لگے رہو گے تو تمہیں اچھی باتوں کی خوشبو کہاں ملے گی۔ سیربیرونی صرف قول و فعل تک کی بات ہے سیر باطن البتہ آسمانوں تک پہنچاتی ہے حس جسمانی کو دیکھ کر خشکی تک ہی رہ گئی اور موسیٰ ؑکی جان نے دریا میں پائوں ڈالا اور پار ہوا جسم خشک کی سیر نے خشکی میں ہی پھنسا دیا۔ سیر جان نے اپنا پائوں دریا کے دل میں ڈال دیا۔ جب خشکی کے اندر ہی عمر کٹ گئی تو کبھی کہسار میں رہے کبھی صحرا میں۔ کبھی دشت میں (پھر) تجھے آب حیوان کس طرح ملے تو کب چاہتا ہے کہ موج دریا کو چیر دے یہ موج خاکی بیماری فہم و وہم اور فکروں میں رہ کر سکر سے دور رہتا ہے اسی لئے اس مستی عشق اور جام عشق سے بے بہرہ ہے یہ ظاہری باتیں تو مثل گردوغبار کے جلد اڑ جانے والی ہیں۔ اسلئے اے ہوش مندو کچھ عرصے خاموش رہو۔

وزیر مکار کی باتیں سن کر اب مریدوں کا اصرار اور بڑھا۔ اور بولے کہ اے دلیلیں اور رکاوٹیں ڈھونڈنے والے حکیم دانا! ہمارے ساتھ یہ ظلم اور فریب نہ کرو۔ وزیر نے کہا۔ کہ اپنی دلیلیں اور حجتیں بند کرو۔ اور میری اس نصیحت کو جان و دل میں راستہ دو۔ جب میں تمہاری نگاہوں میں امین ہوں تو پھر مجھ پر الزام کیا رکھتے ہو۔میں اگر زمین کو بھی آسمان کہوں تو کیا ہوا اگر میں صاحب کمال ہوں تو پھر میرے کمال سے انکار کیا معنی، اور اگر نہیں ہوں تو پھر یہ زحمت اور تکلیف کیوں اٹھاتے ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ اس خلوت سے باہر آئوں کیونکہ میں اپنے باطنی احوال میں محو ہوں۔ سب بولے کہ اے وزیر اس سے کیسے انکار ہے کہ آپ صاحب کمال ہیں لیکن ہماری باتوں کو آپ اغیار کی باتیں نہ سمجھیں۔ آپ کے فراق میں ہماری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔

اس یہودی وزیر نے ان لوگوں کو اندر سے آواز دی کہ اے مریدو! میری جانب سے یہ جان لو کہ مجھے حضرت عیسیٰؑ نے ایسا پیغام دیا ہے کہ تمام دوستوں اور اپنوں سے اکیلے میں رہو۔ گوشہ نشین ہوکر اکیلےبیٹھ جائو۔ اپنے جسمانی وجود سے بھی تنہائی اختیار کرلوں۔ اس کے بعد بات چیت کا حکم نہیں ہے۔ اے دوستو! بس رخصت ہوجائو۔ سمجھو کہ میں مردہ ہوں اور اپنا سامان چوتھے آسمان پر حضرت عیسیٰ ؑکے پاس لے جائوں تاکہ میں کرہ ہوا سے اوپر، آگ والے آسمان سے بھی اوپر رہوں، اور ایندھن کی طرح اس دنیوی محنت و مشقت میں نہ جلوں۔ اب میں اس کے بعد چوتھے آسمان پر حضرت عیسیٰ ؑ کے پہلو میں بیٹھوں گا۔

اس کے بعد اس نے ان عیسائی امیروں کو بلا کر ایک ایک سے تنہائی میں بات کی اور ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ بتایا کہ بس تم ہی عیسوی دین میں اللہ کے نائب اور میرے خلیفہ ہو۔ یہ دوسرے امیر تمہارے تابع ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے ان سب کو تمہارا پیرو بنا دیا ہے۔ اگر ان امیروں میں سے کوئی سرکشی کرے تو اس کو گرفتار کرکے یا تو مار ڈالو یا قید میں ڈال دو لیکن جب تک میں زندہ ہوں کانوں کان کسی کو یہ بات معلوم نہ ہو جب تک میں نہ مرجائوں تم سب کا سردار بننے کی کوشش مت کرنا۔ اورنہ شاہی اور اپنے اقتدار کا ذکر کرنا اب یہ دفتر کتب اور حضرت عیسیٰ ؑ کے احکام، صاف طور پر ایک ایک کرکے اپنی قوم کے سامنے پڑھنا۔ اس طرح اس مکار وزیر نے ہر ایک کو کتابوں کا ایک مجموعہ دے دیا ان کتابوں کا مضمون اور مقصد ایک دوسرے کے خلاف تھا۔ ان کتابوں کی عبارت آپس میں مختلف تھی۔ جیسے کہ حروف الف، با، تا ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس دفتر کتب کا حکم اس دفتر کے خلاف تھا۔ اس اختلاف کا بیان ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں۔ اے پسر! ہم اس کی تفصیل بتا چکے ہیں کہ یہ سر سے پیر تک ایک دوسرے کی ضد تھے۔اس کے بعد وزیر نے چالیس روز تک دروازہ بند رکھا۔ اور اپنے آپ کو قتل کرکے اپنے وجود سے چھٹکارا حاصل کیا۔ جب لوگوں کو اس کی موت کی خبر ہوئی تو اسکی قبر پر قیامت سی برپا ہوگئی۔ بے شمار لوگ قبر پر جمع ہوگئے اور اس کے غم میں کپڑے پھاڑنے لگے بال نوچنے لگے۔ ان میں عرب، ترک، رومی، کرد سبھی شامل تھے۔ تعداد خدا ہی جانتا ہے ۔ ان لوگوں نے فرط غم سے اس کی مٹی اپنے سروں پر ڈالی اور اس کے درد و غم کو اپنا علاج درماں سمجھا۔ ان لوگوں نے ایک مہینے تک اس کی قبر پر اپنی آنکھوں کو خون رلایا۔ اس کی جدائی میں بادشاہ لوگ، بڑے چھوٹے سب نے آہ و زاری کی۔

ایک مہینہ کے بعد لوگوں نے کہا کہ اے بزرگو! سرداروں میں سے کون ان کا جانشین ہے تاکہ ہم اس کو اپنا امام مان لیں اور اپنے کام اس کے ذریعے سے چلائیں۔ ہم سب اس کی اطاعت کریں۔ اس کی بیعت کرکے اسکا سہارا پکڑیں۔آخرش ہم دوستوں کے اس مجمع کی وفاداری کی وجہ سے جو اس داستان کو دل سے سن رہے ہیں۔ اس قصہ کے اختتام پر آگئے ہیں یعنی یہ کہ وہ سب وزیر پیشوا کے مرنے کے بعد اس کی جگہ کوئی نائب چاہتے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین