• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انٹرنیٹ میں ہزار خرابیاں ہوں گی لیکن ایک خوبی بھی ہے، خبر لمحہ بھر میں پہنچ جاتی ہے۔ ابھی کچھ روز کی بات ہے میرے کمپیوٹر کے پردے پر پیغام آیا ”برطانیہ کی معروف افسانہ نگار صفیہ صدیقی انتقال کر گئیں“۔ مرحومہ کا قیام میرے گھر سے کوئی دس میل کے فاصلے پر ہوگا، ان کے انتقال کی خبر وفات کے فوراً بعد چار ہزار میل دور کراچی سے ان کے بھانجے احمد صفی نے بھیجی۔ ذہن یہ سوچتے ہوئے بھی پریشان ہے کہ یہ فاصلوں کے تصور کو کیا ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گزرتی ہوئی گھڑیوں کی چال قیامت کی چال میں کیسے بدل گئی۔
جن لوگوں نے پرانے زمانے دیکھے ہیں وہ میری طرح ششدر ہوں گے مگر پھر خیال آتا ہے کہ جب میں نے ہوش سنبھالا اُس وقت تار اور ٹیلیفون نیا نیا وارد ہوا تھا۔ سوچتا ہوں کہ اس سے پہلے کیا ہوتا ہوگا۔ مجھے آگرہ کے ایک بہت قدیم اردو اخبار’مفیدِ عام ‘ کی وہ خبر یاد ہے جس میں لکھا تھا کہ کابل سے پوسٹ کارڈ آیا ہے اور لکھا ہے کہ ترکی کے محاذ پر کیا صورت حال ہے۔
صفیہ صدیقی چل بسیں۔ ان کا دل کمزور ہوتا گیا اور ایک روز خمو ش ہوگیا۔ اس کا جتنا دکھ برطانیہ میں آباد پڑھے لکھے لوگوں کے حلقے کو ہوا، کسی اور کو شاید ہی ہوا ہوگا۔ صفیہ ایک مثالی خاتون تھیں۔ وہ یوں کہ جس دور میں ہر شخص شعر گوئی میں سر کھپا رہا ہے اور نثر کی طرف صرف چند لوگ متوجہ ہیں اس زمانے میں انہوں نے آخر عمر تک افسانے اور ناول لکھے اور کئی ترجمے کئے۔ جو برس گزر گئے وہ بھی خوب تھے کہ برطانیہ میں خواتین اردو کی نہایت متحرک اور پُراثر کہانیاں لکھ رہی تھیں۔ لندن میں خواتین کی دو تین ادبی تنظیمیں بن گئی تھیں جن کی نشستوں میں ظ انصاری سے لے کر گوپی چند نارنگ تک صاحبان کمال شریک ہوا کرتے تھے اور نئی نئی کہانیاں پڑھی جاتی تھیں اور حاضرین کے مشورے سے ان میں کتر بیونت ہوا کرتی تھی۔
پھر عجب معاملہ ہوا کہ ان میں سے بعض خواتین سمندر پار اور بعض افق پار سدھاریں ۔ بعض نے بڑی عمر کے آگے ہتھیار ڈالے اور باقی نے تن آسانی اختیار کی اور جب کچھ نہ بن پڑا تو شعر کہنے لگیں۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ اس وقت نہ صرف لندن بلکہ وسطی انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور یورپ کے کئی ملکوں میں خواتین کثرت سے شعر کہہ رہی ہیں اور یہ ماننا پڑے گا کہ ان میں شعر کہنے کا سلیقہ بھی خوب ہے۔
لیکن تخلیقی ادب نے یہ جو کروٹ بدلی ہے اس میں افسانہ کہیں بچھڑ گیا اور اپنے دور، اپنے وقت اور اپنے زمانے کی کیفیت کو بلا تکلف بیان کردینے کی روایت جو آگے چل کر تاریخی حوالہ بنتی ہے وہ ادھ موئی ہوگئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب میں افسانہ اب بھی لکھا جارہا ہے اور اس میدان میں قدم بڑھانے والی کچھ خواتین کے قلم کو ابھی زنگ نہیں لگا ہے لیکن اس راہ میں اپنی مخصوص سنجیدگی سے جو کام صفیہ صدیقی نے کیا وہ شاید ہی کوئی اور کر سکے۔
اس پر خیال آتا ہے کہ قدرت کا عجیب نظام ہے کہ وہ عورت پر کچھ کم ہی مہربان ہے۔ دکھوں کے بٹوارے کے وقت عورت کی جھولی بھرنے والے نے زیادہ ہی فیا ضی کا مظاہرہ کیا اور یہ سلسلہ ُس وقت سے چلا آرہا ہے جب تن ڈھانپنے کو ایک پتّے سے زیادہ کچھ نصیب نہ تھا۔ پھر جب ادب کی تخلیق کا عمل شروع ہوا تو ابتدا میں وہ ادب مردوں نے لکھا لیکن انہوں نے عورت کے دکھ کا اظہار اسی طرح کیا جیسے زبانِ غیر سے شرحِ آرزو کی جاتی ہے۔ گھر کی لڑکیوں کو اگرچہ مدرسے بھیجا گیا لیکن ایسی کوئی صورت نہیں تھی کہ وہ قلم اٹھائیں اور حالِ دل بیان کریں۔ تقریباً اسّی سال پرانی کتاب ’ عصمتی دسترخوان‘ میں میری بڑی بہن نے گلگلے تلنے کی جو ترکیب لکھ کر بھیجی ہوگی، وہ کتاب کے چالیسویں ایڈیشن میں آج تک دختر اکبر علی کے نام سے چھپتی ہے۔
لیکن پھر یہ ہوا کہ خواتین حوصلہ مند ہو گئیں اور انہوں نے گھر کی چاردیواری کے اندر کی روداد کا کھل کر اظہار شروع کیا۔ صفیہ صدیقی کا تعلق لکھنے والی ایسی ہی نسل سے تھا۔ صفیہ ضلع لکھنو کے قصبہ نگرام کے محلّہ مولویانہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ترکِ وطن کے بعد وہ راولپنڈی پہنچیں جہاں ان کے پھوپھا کا حکم تھا کہ لڑکیاں اسکول نہیں جائیں گی۔ پھوپھا کا تعلق بھی اُسی محلّہ مولویانہ سے تھا۔
اس ترک ِ وطن کے عمل نے صفیہ کے ذہن پر جو نقش چھوڑا وہ ہمیشہ ان کے چہرے سے بھی عیاں رہا اور ان کی تحریروں سے بھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک آزاد ہوا اور فسادات پھوٹ پڑے۔ صفیہ کا گھرانا جان بچاتا ہوا ایک گھر سے دوسرے گھر اور ایک محلّے سے دوسرے محلّے بھاگتا پھرا اور پناہ گزین کیمپوں میں ٹھہرتا ہوا، مرتا کھپتا پاکستان پہنچا۔ زندگی قدم قدم پر آزمائشوں میں ڈالتی رہی لیکن انہوں نے ایک بڑا کام کیا۔ ان سے جیسے بھی بنا انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی، یہاں تک کہ لندن یونیورسٹی سے ڈگری لے لی۔ صفیہ لکھنے والی زیادہ تر خواتین سے یوں مختلف تھیں کہ انہوں نے انگریزی ادب خوب خوب پڑھا اور اپنی مشرقی بنیادوں پر جدید اور وسیع نظریوں کی عمارت اٹھائی۔ اسی مناسبت سے ان کی تحریروں کو ایک الگ ہی مقام حاصل ہے۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ جس نسل سے صفیہ کا تعلق تھا وہ اِدھر کچھ زیادہ ہی تیزی سے ہمار ے اس دارِ فانی سے کوچ کرنے پر آمادہ ہے۔ادھر چند برسوں میں ہمارے اتنے بہت سے جو احباب سدھارے ہیں ان سب کا تعلق محلّہ مولویانہ سے ہو یا نہ ہو ، اس آگ اور خون کے دریا سے ضرور تھا جسے پار کرکے ہی وہ دوسرے کنارے پر اترے تھے اوراس طرح جنہوں نے ایک نئے وطن کی ولادت کا کرب سہا تھا۔
اور دوسری بات جو شاید تنہا میں ہی محسوس کررہا ہوں یا شاید آپ بھی میرے اس خیال میں شریک ہوں، وہ یہ کہ آزادی کے بعد ہمارے درمیان کوئی بڑا آدمی پیدا نہیں ہوا۔دو ایک کے سوا تمام بڑے شاعر، ادیب، فن کار، مصوّر، دانشور ، استاد اور عالم 14/اگست 1947ء سے پہلے پیدا ہوئے تھے۔
میں تو یہی سوچ رہا ہوں، آپ بھی سوچئے۔
تازہ ترین