• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکتوبر اور نومبر کے مہینے پاکستان میں ڈینگی مچھر کے حوالے سے احتیاط برتنے اور پیشگی اقدامات کے لئے حساس نوعیت کے حامل ہیں اگرچہ یہ وبا سال میں دو مرتبہ نمودار ہوتی ہے تاہم سابقہ تجربات کی روشنی میں رواں سیزن میں لوگوں کو بہت چوکنا رہنا چاہئے۔پنجاب میں 2007 ء کے پہلے اور دوسرے سال سیکڑوں ہلاکتوں اور پھر پشاور میں گزشتہ سال 900سے زائد مریضوں میں ڈینگی کی تشخیص اور 10ہلاکتوں کے بعد جس طرح حکومت کیساتھ شہریوں نے بھی اس سے بچائو کے اقدامات میں تعاون کیا یہ اگرچہ ایک بڑی کامیابی ہے لیکن آئندہ بھی اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ماہرین کے بقول یہ مرض پشتوں تک انسان کا پیچھا کرتا ہے۔ ان دنوں بھی راولپنڈی، پشاور اور کراچی میں ڈینگی کے کئی کیس سامنے آئے ہیں جن میں سے 317راولپنڈی کے مختلف اسپتالوں، 36 پشاور 572 سندھ جن میں سے 538 کراچی میں رجسٹرڈ ہوچکے ہیں اور جب تک ملک میں ڈینگی کا ایک کیس بھی موجود ہے یہ ہمارے لئے مستقل چیلنج بنا رہے گا۔ اگرچہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں شہریوں کے اندر ڈینگی سے بچائو کے بارے میں شعور پیدا ہوا ہے اور وہ اپنے گھروں کی حد تک حفاظتی اقدامات بھی کرنے لگے ہیںلیکن معاملے کی نوعیت ایسی ہے کہ اکیلے شہری اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے خصوصاً بارشوں کے بعد اب بھی بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں کھڑے پانی میں ڈینگی کی پرورش کے امکانات پائے جاتے ہیں ۔ لہٰذا اس مقام پر جہاں ڈینگی سر اٹھا سکتا ہے بلاتاخیر محکمہ صحت کی جانب سے مچھر مار سپرے کو یقینی بنایا جائے، ڈینگی کا مرض بدقسمتی سے ایک آفت ہے جو جاندار سے آتی ہے اور جاندار ہی اس کا شکار ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بہت سے ملکوں نے ٹھوس اور اجتماعی کوششوں سے اس پر مکمل قابو پالیا ہے۔ ہمیں بھی اس موذی مرض کی بیخ کنی تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین