• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روسی مدبر نکیتا خورشیف نے کہا تھا ’’سیاستدان ہر جگہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔یہ وہاں بھی پُل بنانے کا وعدہ کر لیتے ہیں جہاں کوئی دریا ہی نہیں ہوتا۔‘‘ خدا جانے نکیتا خورشیف نے یہ بات کس تناظر میں کہی اور انکا اشارہ کس طرف تھا مگر میں جب بھی کپتان کے نئے پاکستان کا تصور کرتا ہوں تو یہ جملہ ’’ہانٹ‘‘ کرنے لگتا ہے۔اونچی اُڑان تو میرے کپتان کی پہچان ہے ہی مگر اب ان کے تخیل و عزم کی پرواز آخری آسمان کو چھونے لگی ہے اور اس کا احاطہ کرنے کیلئے افراد تو کیا مشینوں کی ہمتیں بھی جواب دینے لگی ہیں۔پانچ سال میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کو ہی دیکھ لیں۔بتایا گیا ہے کہ پچاس لاکھ خاندانوں کو چھت فراہم کرنے کے اس منصوبے پر 180ارب ڈالر لاگت آئے گی یعنی اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے 24300ارب روپے درکار ہونگے۔یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کی لاگت کا تخمینہ 1450ارب روپے ہے یعنی گھروں کے بجائے اگر ڈیم بنانا چاہیں تو اتنی بڑی رقم دیامیر بھاشا جیسے 16,17بڑے ڈیم اور پاور پلانٹس بنانے کیلئے کافی رہے گی۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے جو 15ارب ڈالر کا قرض ملنا ہے اگر یہ ساری رقم اس منصوبے کیلئے مختص کر دی جائے تو یہ درکار سرمائے کا عشر عشیر نہ ہو۔ایف بی آر خاصی تگ و تاز کے بعد سالانہ 3000ارب روپے جمع کرتا ہے اگر مسلسل پانچ سال تک ایک روپیہ خرچ نہ کیا جائے،کوئی نیا اسپتال یا تعلیمی ادارہ نہ بنے،کوئی اور ترقیاتی منصوبہ شروع نہ کیا جائے،سرکاری ملازمین روکھی سوکھی کھا کربغیر تنخواہ کے گزارہ کرلیں،دفاعی بجٹ پرسمجھوتہ کرلیا جائے تو بھی پانچ سال میں اتنی بڑی رقم جمع نہیں ہو سکتی۔ہمارے ہاں گھروں کی شدید قلت ہے،عام آدمی تو کیا اچھی خاصی معقول آمدنی کا حامل شخص بھی کسی شہر میں چھوٹا سا گھر بنانے کی خواہش پوری نہیں کر سکتا۔ملک کو 8.5 ملین گھروں کی کمی کا سامنا ہے اور ہر سال 2لاکھ گھروں کی قلت پیدا ہونے سے یہ مسئلہ گمبھیر ہوتا جا رہا ہے اسلئے میری خواہش ہے کہ یہ منصوبہ ناکام سرکاری پروجیکٹس کے قبرستان میں دفن نہ ہو مگر اب تک یہ فلاحی نہیں بلکہ ’’خلائی منصوبہ‘‘ محسوس ہو رہاہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں قیام پاکستان کے بعد اب تک تعمیر ہونے والے گھروں کی تعداد 6031430ہے۔ان میں سے بھی 30.38فیصد گھر محض ایک کمرے پر مشتمل ہیں جن پر مکان کی ناحق تہمت ہے۔18 فیصد گھر کچی آبادیوں پر مشتمل ہیں یعنی پختہ مکان (جن میں ایک کمرے کے گھر بھی شامل ہیں ) 82فیصد ہیں۔اب اگر گزشتہ 71سال کے دوران نجی شعبے اور حکومت کی مشترکہ کوشش کے نتیجے میں 48لاکھ گھر تعمیر ہو سکے ہیں تو آئندہ پانچ سال میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا دعویٰ ایسے ہی ہے جیسے کوئی نام نہاد انجینئر کہے کہ پانی سے گاڑی چلائی جا سکتی ہے۔

نئے پاکستان کے معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ اس منصوبے کیلئے درکار 180ارب ڈالر میں سے حکومت ایک ڈالر بھی خرچ نہیں کرے گی بلکہ یہ ہدف نجی شعبے کے اشتراک سے حاصل کیا جا ئے گا۔نجی تعمیراتی کمپنیاں گھر بنائیں گی اور گھر رہن رکھ کر نجی بینک قرض دیں گے یوں آسان اقساط پر چھت میسر آجائے گی۔اس حوالے سے ترقی یافتہ ممالک میں نافذالعمل موڈگیج ماڈل پیش کیا جا رہا ہے مگر ان ممالک کی مثال دینا دوسروں کا سُرخ چہرہ دیکھ کر اپنا منہ تھپڑوں سے لال کرنے والی بات ہے۔ جن ممالک کی بات ہو رہی ہے وہاں شرح سود زیادہ سے زیادہ 4.5فیصد ہے۔برطانیہ کو ہی دیکھ لیں۔بینک آف انگلینڈ نے دس سال میں دوسری بار شرح سود میں اضافہ کیا اور مانیٹری پالیسی کے تحت شرح سود 0.5فیصد سے بڑھا کر 0.75فیصد کر دی مگر پھر بھی وہاں اوسطاً 2.5فیصد سود دینا پڑتا ہے۔مگر ہمارے ہاں ہر دو ماہ بعد مانیٹری پالیسی تبدیل ہوتی ہے۔اسٹیٹ بینک نے سود کی شرح 8.5فیصد مقرر کی ہے تو کوئی بینک 10فیصد سے کم شرح سود پر کیسے قرضہ دے سکتا ہے۔یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ رہائشی منصوبے کے تحت ایک گھر 15لاکھ میں تعمیر ہوگا،1.5لاکھ ڈائون پیمنٹ ہوگی،13.5لاکھ بینک قرض دے گا جس پر ماہانہ 12ہزار روپے قسط ادا کرنا ہوگی۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ گھر تین مرلے کا بھی ہو تو 15لاکھ میں کیسے بن پائے گا ؟سرکاری اراضی استعمال کی جائے تو بھی کم ازکم تین لاکھ روپے فی مرلہ ڈویلپمنٹ چارجز ہونگے تو 6لاکھ میں گھر کون بنا کر دے گا ؟اور پھر 12ہزار ماہانہ قسط ہو تو 20سالہ پالیسی کے تحت یہ گھر کم ازکم 32لاکھ میں پڑے گا۔تو اس میں عام آدمی کیلئے ریلیف کہاں ہے ؟

اگر کم شرح سود پر قرض کی سہولت ہی دینا مقصود ہے تو اس کیلئے ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے نام سے ادارہ موجود ہے۔ سرکاری ملازمین کو ہی گھر بنا کر دینے ہیں تو پی جی ایچ ایف کے نام سے محکمہ موجود ہے۔اور آخر میں ایک لٹمس ٹیسٹ۔خیبر پختونخوا میں ریگی ماڈل ٹائون کے نام سے صوبے کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا رہائشی منصوبہ ایسی لاتعداد حسرتوں کی داستان بیان کرنے کیلئے کافی ہے۔یہ منصوبہ 1990ء میں لانچ کیا گیا،4616ایکڑ پر محیط ریگی ماڈل ٹائون منصوبے کے پانچ زون ہیں اور مجموعی طور پر پلاٹوں کی تعداد 30000کے قریب ہے۔اس منصوبے کے آغاز پر اپنے گھر کا خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں پتھرا گئیں،کتنے بدقسمت الاٹی قبروں میں جاسوئے مگر تاحال صرف 600خوش نصیب ہی گھر بنا سکے ہیں جبکہ باقی لوگ الاٹمنٹ لیٹر لیکر پی ڈی اے دفاتر کی خاک چھان رہے ہیں۔جب خیبرپختونخواکی صوبائی حکومت گزشتہ پانچ برس کے دوران 27سال پرانے اس منصوبے کو مکمل نہیں کر سکی تو کئی ہزار گنا بڑا ـ’’خلائی منصوبہ ‘‘کیسے مکمل ہوگا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین