• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل ’’ڈونکی کنگ‘‘ کا بڑا چرچا ہے۔ کئی لوگ یہ فلم دیکھ چکے ہیں، کچھ دیکھنا چاہتے ہیں، دیکھ کر آنے والے دلچسپ تبصرے بھی کر رہے ہیں۔ معروف صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ ’’میری والدہ مجھے کھوتا کہتی تھیں، آج وہ ہوتیں تو بہت خوش ہوتیں‘‘ حامد میر کی والدہ بڑی نیک سیرت خاتون تھیں، انہوں نے ساری زندگی درویشی کی چادر اوڑھے رکھی، انہوں نے ایک صوفی بزرگ کے کہنے پر حامد میر کا نام تبدیل کیا ورنہ پہلے تو یہ نام حارث میر تھا۔ شاید صوفی بزرگ نے یہ نام اس لئے تبدیل کیا ہو کیونکہ خیبر کی سرداری رکھنے والے یہودی مرحب کے بھائیوں کے نام حارث اور انتر تھے۔ حامد میر کرکٹر بننا چاہتا تھا مگر میاں شہباز شریف ایک فوجی آمر کے کہنے پر راستے کی رکاوٹ بنے رہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شہباز شریف کیسے رکاوٹ بنے ہوں گے تو اسے واضح کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک زمانے میں شہباز شریف لاہور کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔

یہ باتیں آج مجھے اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ آج کل میاں شہباز شریف آشیانہ ہائوسنگ اسکیم میں بدعنوانی کرنے کے الزام میں نیب کی حراست میں ہیں۔ شہباز شریف زندگی میں صرف ایک کرکٹر کے لئے رکاوٹ نہیں بنے بلکہ کئی لوگوں کے لئے رکاوٹ بنے۔ جس مقدمے میں وہ زیر حراست ہیں اس میں بھی وہ ایک کمپنی کے لئے رکاوٹ بنے تھے۔ اس کمپنی کا نام لطیف اینڈ سنز ہے۔ شہباز شریف میرٹ پر تو اس کمپنی کو نظرانداز نہیں کر سکتے تھے لہٰذا انہوں نے لطیف اینڈ سنز کی رکاوٹ بننے کے لئے ایک اور منفرد راستے کا انتخاب کیا، باہمی معاہدوں کے اس راستے کے تحت انہوں نے لطیف اینڈ سنز کو آشیانہ اسکیم سے الگ کر دیا۔ یہ کمپنی جو 180ارب سے زائد کے منصوبوں کو مکمل کر چکی ہے، اس کا ٹریک ریکارڈ بھی انتہائی شاندار ہے، یہی شاندار ریکارڈ ہی اسے عدالتوں کی طرف لے گیا، یہیں سے آشیانہ اسکیم میں ہونے والی بدعنوانیوں کا بھانڈہ پھوٹنا شروع ہوا۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے طاقت کے بل بوتے پر لطیف اینڈ سنز کو بدنام کروانے کی پوری کوشش کی۔ ہو سکتا ہے یہ کوششیں اب بھی ہو رہی ہوں مگر یقین کیجئے کہ اگلے چند دنوں میں آشیانہ اسکیم کے سلسلے میں کچھ اور لوگوں کو گرفتار کر لیا جائے گا، کہیں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ اس مرتبہ بے رحمانہ احتساب ہو گا، کسی کو معافی نہیں ملے گی۔ لوگو! یاد رکھو طاقت ہمیشہ آپ کے ساتھ نہیں رہتی، حکومت بھی ہمیشہ آپ کی نہیں رہ سکتی، ہمیشہ کی طاقت، ہمیشہ کی حکومت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ 

مرتضیٰ درانی سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر کے مشیر رہے ہیں، جس روز ضمنی انتخابات ہو رہے تھے، اسی دن سہ پہر سے لے کر شام تک مرتضیٰ درانی نے موجودہ حکومت کے حوالے سے کئی باتیں کیں۔ مثلاً ان کا کہنا بجا تھا کہ دنیا کے جتنے ملکوں نے ترقی کی ہے یا ان کا وزیر اعظم اقتصادیات کا ماہر تھا یا پھر ان کا وزیر خزانہ اقتصادیات کو پوری طرح سمجھتا تھا، ڈالر کی برق رفتاری اور مہنگائی نالائقی کے باعث ہی ہوتی ہے اور ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ میں نے مرتضیٰ درانی کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آپ بالکل درست فرما رہے ہیں، پی ٹی آئی ضمنی الیکشن میں اچھا رزلٹ کیسے دے سکتی ہے کہ الیکشن سے ایک روز قبل حکومتی وزیر خزانہ، مفرور اسحاق ڈار کی تعریفیں کر رہا تھا، کیسی عجیب بات ہے کہ پاکستان کے ادارے اسحاق ڈار کو ڈھونڈ رہے ہیں، عدالتوں نے اس کی جائیداد قرق کر دی ہے، وزارت داخلہ اسے لانے کا بندوبست کر رہی ہے، اسحاق ڈار نے ملکی معیشت تباہ کی تھی، وزیر اعظم عمران خان جلسوں میں اسحاق ڈار پر تنقید کرتے رہے ہیں، مگر افسوس موجودہ حکومت کے وزیر خزانہ اسد عمر اپنے پیشرو اسحاق ڈار کی تعریفیں کر رہے ہیں، اگر اسحاق ڈار درست تھا تو پھر غلط کیا تھا؟ اگر چالیس ارب ڈالر قرض لینے والا درست تھا تو پھر غلط کیا تھا، اگر سادہ بی اے پاس لوگوں کو بینکوں کا سربراہ بنانے والا درست تھا، منی لانڈرنگ کرنے والا درست تھا تو پھر غلط کیا تھا؟

ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو دھچکا لگا۔ اس دھچکے کی بڑی وجہ مہنگائی میں اضافہ ہے مگر اس میں کچھ سیاسی وجوہات بھی ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو اس کا جائزہ لینا چاہئے۔ وزیر اعظم عمران خان کو تلاشی لینی چاہئے کہ ان کا کونسا چہیتا وزیر ابھی تک اسحاق ڈار اور عبداللہ یوسف کے ساتھ رابطے میں ہے اگر وزیر کی سمجھ نہ آئے تو میں ایک چھوٹا سا واقعہ لکھ دیتا ہوں تاکہ انہیں تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ وزیر اعظم کو یاد ہو گا کہ برطانیہ سے ایک ایسی کمپنی کے تین چار افراد کچھ دن پہلے پاکستان آئے تھے جو کمپنی دنیا میں چھپی ہوئی رقوم اور جائیدادیں بتاتی ہے۔ اس کمپنی نے بڑے واضح انداز میں کہا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ معاہدہ کر لیں، ہم آپ کو چند دنوں میں لوٹی ہوئی رقوم کی واپسی شروع کروا دیں گے اور دس ارب ڈالر تو دس دنوں میں واپس کروا دیں گے، باقی لوٹی ہوئی رقوم کی واپسی چند مہینوں میں ہو جائے گی۔ اسی کمپنی نے ٹیسٹ کیس کے طور پر ایک سیاسی شخصیت کے داماد کے بھائی کا سنگاپور کا اکائونٹ بھی دیا تھا جس میں 42ملین ڈالرز تھے۔ اس کمپنی نے چار پیپرز بھی دیئے تھے، وہ کونسا چہیتا وزیر ہے جس نے سنگاپور سے متعلق انفارمیشن متعلقہ فریق کو دے دی کیونکہ اس اکائونٹ سے دوسرے دن 42ملین ڈالرز نکل گئے تھے، آپ کا وہ کونسا وزیر ہے جس نے چاروں پیپرز سینیٹ میں پڑھ دیئے تھے، وہ کون ہے جس نے اس کمپنی کے ساتھ معاہدے سے روک دیا تھا۔ وزیر اعظم صاحب جلدی کرو، تلاشی لو، اپنی ٹیم سے جاسوسوں کو نکال دو ورنہ حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ بقول محسن نقوی ؎

ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی

میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین