• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسی کیا بات ہے جو آئی جی پنجاب کو عہدے کیلئے نا موزوں بناتی ہے؟

اسلام آباد (انصار عباسی) الیکشن کمیشن کی مداخلت کی وجہ سے پیدا ہونے والے تعطل کے چند روز بعد پنجاب پولیس کو طاہر خان کی جگہ نئے آئی جی پولیس امجد جاوید سلیمی مل گئے ہیں لیکن سربراہان کو تبدیل کرنے کے عمل میں عدالتی احکامات کی دو خلاف ورزیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ بیوروکریسی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلی خلاف ورزی طاہر خان کا قبل از وقت تبادلہ ہے، انہیں بمشکل ایک ماہ قبل ہی پنجاب کا آئی جی پولیس لگایا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری خلاف ورزی نئے آئی جی پولیس امجد سلیمی کے حوالے سے ہے جن کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ جلد آنے والی ہے اور وہ عدالتوں کی جانب سے صوبائی پولیس چیف کے عہدے کیلئے مقرر کردہ کم از کم مدت ملازمت کی شرط پر پورا نہیں اترتے۔ آئی جی پولیس کے عہدے کی کم از کم مدت ملازمت تین سال ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے اے ڈی خواجہ کیس میں قرار دیا تھا کہ (آئی جی پولیس کے) عہدے کیلئے صرف اسی افسر کو منتخب کیا جائے جو مکمل مدت ملازمت (تین سال) پوری کر پائے۔ سندھ ہائی کورٹ نے فیصلے میں لکھا تھا کہ دو مخصوص نکات یہاں پیش کیے جاتے ہیں: اول، پول میں موجود افسران اس انداز سے ہونا چاہئیں کہ ریٹائرمنٹ سے قبل کئی سینئر افسران ممکن ہے کہ عہدے کی مدت مکمل نہ کر پائیں، اور اس لئے جو کچھ کہا گیا ہے اس پر سختی سے عمل کی صورت میں ایسے افسران کو پیشہ ورانہ انداز سے نقصان ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال کو غیر معمولی حالات کے زمرے میں رکھا جائے جس میں زیادہ سینئر افسر کو مقرر کیا جائے چاہے وہ ریٹائرمنٹ سے قبل مدت ملازمت مکمل نہ کر پائے۔ لیکن، یہ صرف اس وقت کیا جائے جب افسر مدت ملازمت کا تین چوتھائی وقت پورا کرنے کے قابل ہو۔ اس طرح سندھ ہائی کورٹ نے یہ اصول طے کر دیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے کسی پولیس افسر کو اس وقت تک صوبائی پولیس چیف نہیں لگایا جائے گا جب تک اس کی باقی سروس تین سالہ مدت ملازمت کا تین چوتھائی حصہ باقی نہ ہو۔ نئے آئی جی پولیس پنجاب کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 31؍ جنوری 2020ء ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ سندھ ہائی کورٹ کے طے شدہ اصول کے مطابق ان کی باقی ماندہ سروسز صوبائی پولیس کے عہدے کیلئے مطلوبہ مدت سے تھوڑی کم ہے۔ جس افسر کو آئی جی پولیس لگانا ہے اس کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ افسر کو لازماً پی ایس پی کی وفاقی ضروریات کو پورا کرنا ہوگا جس میں 1985ء کے پی ایس پی رولز اور دیگر قواعد و ضوابط شامل ہیں۔ جو بات یقینی بنانا ہے وہ یہ ہے کہ تقرر کے حوالے سے صوبائی معیارات بھی پورا کرنا ہوں گے اور بالخصوص اس وقت جب عہدے کے ساتھ مدت جڑی ہو، اس پر بھی عمل کرنا ہوگا۔ سندھ ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اسی وقت سپریم کورٹ کی جانب سے وقتاً فوقتاً نافذ کیے جانے والے قوانین اور دیگر قوانین اور فیصلوں پر عمل کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس افسر کو مقرر کیا جا سکتا ہے جو پوری مدت ملازمت مکمل کر سکتا ہو۔ یہ بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی 2017ء میں پنجاب کے قائم مقام آئی جی پولیس ریٹائرڈ کیپٹن عثمان خٹک کے تقرر کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا کیونکہ افسر کے پاس اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے میں صرف تین ماہ باقی رہ گئے تھے۔ کورٹ کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق، آئی جی پنجاب کے پاس تین سال ہونا چاہئیں اور صوبائی حکومت نے بظاہر ایسے افسر کو آئی جی پولیس مقرر کر کے توہین عدالت کی ہے جس کے پاس ریٹائر ہونے میں صرف تین ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ بصورت دیگر بھی، بمشکل ہی ایک ہی ماہ بعد سابق آئی جی پولیس محمد طاہر خان کے قبل از وقت تبادلہ بھی انیتا تراب کیس کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ خان کو گزشتہ ماہ ہی پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی جی پنجاب مقرر کیا تھا۔ وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ آئی جی پولیس کو اس لئے ٹرانسفر کیا گیا کیونکہ وہ سرکاری ہدایات پر عمل نہیں کر رہے تھے۔ تاہم، عہدے کی مدت مکمل کرنے سے قبل ہی کسی افسر کو عہدے سے ہٹانا سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے جو انیتا تراب کیس میں سنایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کو ان کے عہدے کی مدت کے حوالے سے تحفظ فراہم کر رکھا ہے اور قبل از وقت تبادلے کیلئے یہ ضروری ہے کہ مجاز اتھارٹی تحریری طور پر وہ وجوہات پیش کرے جن کی بنیاد پر تبادلہ کیا گیا ہے، یہ وجوہات عدالت میں قابل نظر ثانی ہیں۔

تازہ ترین