مسلم شمیم
حیدر بخش جتوئی7 اکتوبر 1901 ء میں موہن جو دڑو کے قریب، بکھو ڈیرو نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ چوں کہ پیدائش کے فوراً بعد والدہ کا انتقال ہو گیا تھا، اس لیے مادرانہ شفقت اور محبّت سے محروم رہے۔ 11سال کی عُمر میں اسکول میں داخل کروایا گیا، جو چند میل دُور واقع گائوں،’’ پٹھان‘‘ میں تھا۔ ایک بار لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر اسکول کے معائنے کے لیے آئے، تو حیدر بخش جتوئی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اُن کے والد سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ ملاقات ہوئی، تو ڈپٹی کمشنر نے مشورہ دیا کہ’’ اپنے فرزند کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں کہ وہ غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے۔‘‘ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ مدرستہ الاسلام، کراچی میں داخل ہوئے، جہاں نمایاں پوزیشنز لیتے رہے اور دسویں جماعت میں سندھ بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔نیز، ڈی جے سائنس کالج سے گریجویشن کے بد ممبئی یونی ورسٹی سے فارسی میں امتیاز حاصل کیا۔
سرکاری ملازمت: محکمۂ ریونیو میں ہیڈ منشی کی حیثیت سے کیرئیر کا آغاز کیا۔ چند برس بعد مختار کار کی حیثیت سے ترقّی ہوئی اور اسی حیثیت سے ڈوکری، جیمس آباد، ڈگری اور گھوٹکی میں فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد، Encumbered Estates Court میں نائب مینجر مقرّر کیے گئے۔ بعدازاں اُن کا تقرّر Encumbered Estates Courtاور Court of Wards کے مینجر کے ذاتی مدد گار کی حیثیت سے ہوا۔ افسر تحقیقات کوآپریٹو سوسائیٹز، سکھر زون بھی کام کرتے رہے اور بالآخر 1945ء میں قائم مقام ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت سے استعفا دیا۔ وہ عوام کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ ایک بار مسلمان زمین دار نے ہندوئوں کے علاقے میں گائے کی قربانی کی،تو اُنہوں نے زمین دار کی سرزنش کی۔ اسی طرح ایک دفعہ سیلاب کا خدشہ ہوا، تو فوراً متاثرہ گاؤں پہنچ گئے اور مزدوروں کے ساتھ مل کر پُشتہ مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ سکھر کے کلکٹر نے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں تمغا دیا، جسے اُنہوں نے قبول نہیں کیا۔ سکھر میں کوآپریٹو سوسائیٹز کے نادہندگان کی تعداد بہت زیادہ تھی اور وہ سود ادا کرنے کے قابل نہیں تھے، حیدر بخش جتوئی نے فوری طور پر سود معاف کردیا۔ نیز، حیدرآباد میں بہت سے حُروں کو بہ حیثیت مارشل لا مجسٹریٹ آزادی عطا کی۔ ملازمت کے دوران اپنی تن خواہ سے کچھ رقم بچاتے رہے، پھر حساب لگایا کہ اُن کی تعلیم پر کتنا خرچ ہوا تھا، تو وہ رقم اپنے والد کو واپس کردی۔
شادی: 23سال کی عُمر میں شادی کی اور پوری زندگی بیوی اور بچّوں کے پرستار رہے۔ شادی خالہ زاد، سمول سے ہوئی، جو کریم بخش جتوئی کی لڑکی تھیں اور وہ اُنھیں پیار سے ممتاز کہا کرتے تھے۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں اولاد سے محروم رہے، تو والد نے دوسری شادی کا مشورہ دیا، مگر حیدر بخش نہ مانے۔ چند برسوں بعد اُن کے یہاں لڑکا پیدا ہوا، اس کے بعد اللہ نے مزید بیٹوں سے نوازا، جن کے نام مظہر علی، دادن، حاتم اور مرتضیٰ تھے۔ اُن کی بیٹی نہیں تھی، جس کی اُنہیں شدید تمنّا تھی۔
سندھ ہاری کمیٹی: اُنہیں ہاریوں اور کاشت کاروں کی حالتِ زار پر بہت دُکھ ہوتا تھا۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی ملازمت کے دَوران کسانوں کے لیے کچھ نہیں کرسکتے،تو ملازمت سے استعفا دینے کا فیصلہ کیا تاکہ ہاریوں کی حالت بدلنے اور بہتر بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت دے سکیں۔ جب مختار کار کی حیثیت سے کام کررہے تھے، تب بھی ملازمت سے استعفا پیش کیا، مگر والد اور ضلع کے کلکٹر کے اصرار پر واپس لے لیا۔ بعدازاں، 1945ء میں ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے استعفا دے کر’’ سندھ ہاری کمیٹی‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ 1946ء میں سندھ ہاری کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے اور کچھ عرصہ چھوڑ کر اپنی وفات تک اسی عُہدے پر کام کرتے رہے۔
سیاسی سفر: حیدر بخش جتوئی نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس، تھیوسوفیکل سوسائٹی اور کمیونسٹ پارٹی، ہندوستان کے ایک رُکن کی حیثیت سے کیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے وفادار رُکن تھے، لیکن حکمتِ عملی کے معاملوں میں غیر مقلّد رہے۔ ہمیشہ روادارانہ، آزاد خیال اور وسیع فہم و فکر کا مظاہرہ سیاسی پالیسیز اور مذہبی فلسفیانہ سوچ کے تحت کیا۔ اُن کا خیال تھا کہ ایسا کرنا ہی مناسب ہے۔ وہ اُن روایتی اصلاحات کے، جو سر راجر تھامس (Sir Rojer Thomas) کمیٹی نے مزارع قوانین پر وضع کی تھیں، سخت خلاف تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ سر راجر تھامس خود زمین دار تھے، اسی لیے اُنہوں نے ہاریوں کو مالکانہ حقوق دینے کی صورت میں سندھ میں سیاسی افراتفری پھیلنے کی بات کی تھی۔ جو ہاری قرضوں کی ادائی میں ناکام رہتا، اس پر فقط سِول کورٹ میں مقدمہ دائر کیا جا سکتا تھا، لیکن سر راجر تھامس نے تجویز دی تھی کہ اس قسم کی عدم ادائی کو مجرمانہ مقدمات کی حیثیت دے کر سزا دی جائے، جس میں قید بھی شامل تھی۔ جب ان تجاویز پر اختلاف ہوا، تو تصفیے کے لیے سر راجر تھامس نے تجویز دی کہ اس سلسلے میں پانچ افراد کی کمیٹی بنائی جائے، جس میں دو ہاری ہوں، جن کا تقرّر کلکٹر نے کیا ہو، دو زمین دار ہوں اور پانچواں شخص مختار کار ہو۔ یہ بھی تجویز دی گئی تھی کہ اگر کسی ہاری نے کوئی غیر قانونی کام کیا، تو اُسے اُس کے حقوق سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ کامریڈ حیدر بخش جتوئی کا کہنا تھا کہ’’ ہم لوگ تیار تھے کہ اِس یک طرفہ ناانصافی کو برداشت کرلیں گے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ زمین دار کے لیے بھی ایسا ہی قانون ہو، جس کے تحت اُسے بھی جرم کی صورت میں زمین داری سے محروم کیا جاسکے۔اب ہم لوگوں کو اس سے زیادہ اور کچھ نہیں چاہیے کہ زمین داری کو مکمل طور پر ختم کیا جائے اور وہ بھی کسی معاوضے کے بغیر۔‘‘ اس کے بعد اُنہوں نے ایک قرار داد پاس کی، جس کے تحت بٹائی (غلّے میں حصّہ) کی ادائی غلّے کی بجائے نقد (روپوں میں) کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اُنہوں نے ہی عوام کو’’جئے سندھ ‘‘ کا نعرہ دیا۔ یعنی وہ’’ جیے سندھ تحریک‘‘ کے بانی تھے۔ اُنہوں نے کئی بار انتخابات میں حصّہ لیا، تاہم کبھی کام یاب نہ ہوسکے۔ کامریڈ جتوئی نے گائوں، تعلقے، ضلعے اور صوبے کی سطح پر’’ سندھ ہاری کمیٹی‘‘ کو منظّم کیا، اس کا آئین مرتّب کیا، جس کی جنرل باڈی نے منظوری دی۔ کراچی میں سندھ اسمبلی کے دروازے کے سامنے اُن کی قیادت میں ہاریوں نے ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا، جسے اُنہوں ہی نے منظّم کیا تھا۔ مارچ 1950ء میں’’ سندھ لگان داری‘‘ بل پاس کروایا اور کاشت کار طبقے کے لیے کانفرنسز منعقد کیں۔ 1950ء میں تعلقہ ڈوکری میں ہاریوں کی جنرل میٹنگ بلوائی گئی، کیوں کہ ہاریوں نے سود کی ایک نئی شکل’’ بول‘‘ کے خلاف شکایت کی تھی۔ اس سودی طریقے میں کاشت کار، ساہوکار سے مہمل طریقے سے قرض لے سکتا تھا، جس میں سود کی شرح ،عام شرح سے زیادہ ہوتی تھی۔ مطلوبہ دھان کی قیمت فی مَن دس روپے ہوتی، لیکن ہاری اسے نقد روپے کی پیشگی پر تین ماہ کے قرض کی شرح فی من 6روپے لے سکتا تھا، لیکن یہ بیج بونے کے موسم کے درمیان ہوتا تھا۔ صحیح معنوں میں اس حالت میں سود کی شرح ہر ماہ پچاس فی صد زیادہ ہوتی تھی۔ کامریڈ جتوئی نے ہاریوں سے کہا کہ وہ رقم کو کیش (روپوں) کی شکل میں بالکل اسی طرح ساہوکاروں کو ادا کریں، جس طرح اُنہوں نے 3ماہ قبل آغاز میں حاصل کی تھی۔ اس میٹنگ میں ساہو کار بھی موجود تھے، تو اُنھوں نے بہت واویلا مچایا کہ کامریڈ جتوئی ’’بول نظام‘‘ کے خلاف وعدہ خلافی کی حوصلہ افزائی نہ کریں، لیکن آخر میں’’بول نظام‘‘ کے خلاف ہاریوں نے متحد ہو کر پورے سندھ میں جدوجہد کی اور اس کا خاتمہ کردیا۔
خطرناک آدمی: جب صدر ایّوب خان نے حیدرآباد کا دَورہ کیا، تو قاضی محمّد اکبر نے اُنہیں جتوئی صاحب کی رہائی کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی، جس پر صدر ایوب نے کہا،’’حیدر بخش جتوئی ایک بہت خطرناک آدمی ہے، اسے کس طرح رہا کیا جاسکتا ہے؟‘‘ تاہم، حیدر بخش جتوئی اعلانِ تاشقند پر اس قدر خوش تھے کہ فوری طور پر ایوب خان کو مبارک باد کا تار بھیجا۔ جب چین کے وزیرِ اعظم، چو این لائی نے جام شورو، سندھ کا دَورہ کیا، تو کامریڈ جتوئی سے بھی اُن کا تعارف کروایا گیا۔
چو این لائی نے اُنہیں گلے لگایا اور کہا’’یہ وہ راستا ہے، جس پر چل کر دو کسان رہ نمائوں کو ملنا چاہیے۔‘‘جب وہ اٹک جیل سے رہا ہوئے اور ریل گاڑی کے ذریعے حیدرآباد پہنچے، تو ایک ہیرو کی طرح اُن کا استقبال کیا گیا۔ اُنھیں جلوس کی شکل میں گھر تک لایا گیا، جہاں اُنھوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا’’ اگر میرے پاس ہزار زندگیاں ہوتیں، تو سب سندھ کے لیے قربان کردیتا۔‘‘ اُنہوں نے جدوجہد جاری رکھنے کے لیے اپنی زمین کا کچھ حصّہ، بیوی کے زیور اور دیگر اشیا تک فروخت کردی تھیں۔
شاعر: جب وہ بدین میں مختار کار تھے، تو اُنہوں نے اپنی سندھی شاعری کا مجموعہ’’ تحفۂ سندھ‘‘ کے نام سے شائع کروایا۔ 65صفحات کے اس مجموعے میں نظم’’ دریا شاہ‘‘ اور’’شکوہ‘‘ بھی شامل ہیں، جن کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔ ’’دریا شاہ‘‘ میں دریائے سندھ کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے اور اس نظم کو سندھی ادب میں لافانی حیثیت حاصل ہے۔ 1946ء میں اُنہوں نے اپنی شاعری کا دوسرا مجموعہ’’آزادیٔ قوم‘‘ شائع کروایا۔ یہ طویل نظم’’ مخمّس‘‘ یعنی پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور اس کا موضوع، برصغیر میں برطانوی راج کے خلاف جدوجہد ہے۔ یہ نظم 64صفحات پر محیط ہے، جس میں 171بند ہیں۔ اُن کی دیگر نظموں میں سندھ پیاری، سلام سندھ، اے سندھی وڈیرا، کجھ انسان تھی( اے سندھی وڈیرے! کچھ انسان بن)، حیوان انسان، جیے سندھ، جیے سندھ، اے مٹھی جیجل وغیرہ شامل ہیں۔ اُنھوں نے کئی مشاعروں میں بھی شرکت کی، جن میں پاک و ہند اُردو مشاعرہ بھی شامل ہے، جس میں اُنھوں نے سندھی نظم پڑھی۔
بے باک مصنّف: وہ ایک زود نویس مصنّف تھے۔ کوئی دن ایسا نہ گزرتا، جب اُن کی کوئی تحریر سامنے نہ آتی۔ ون یونٹ کے خلاف کئی کتابچے لکھے۔ وہ لاہور گئے، تو وہاں کتابچہ’’جمہوریت اور اعلیٰ عدلیہ کا انصاف‘‘ جسٹس منیر کو پیش کیا۔ جب اُنہوں نے وہ کتابچہ دیکھا، تو آگ بگولا ہوگئے۔ اُنہوں نے محمّد علی قصوری کو بلایا اور کہا’’ حیدر بخش جتوئی نے کتابچے میں جو لکھا ہے، اس پر ہتکِ عزّت کا مقدمہ دائر کروں گا۔‘‘ اس پر قصوری صاحب نے کہا کہ’’ جتوئی بھی یہی چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس خود اپنے آپ پر مقدمہ دائر کریں۔‘‘ اس سوال پر جسٹس منیر ٹھنڈے ہوگئے۔ حیدر بخش جتوئی نے سندھی زبان میں کئی کتابیں تصنیف کیں اور انہیں شائع بھی کروایا۔ ’’ہاری انقلاب‘‘، ’’زمین دار شاہی عرف کام دار جا کارنامہ‘‘ میں کہانی کی صورت میں زمین داری نظام کی خرابیوں اور نوکر شاہی ذہنیت کو دِکھایا گیا ہے۔ جس کتاب میں کسانوں پر نظمیں لکھی گئی ہیں، اُس کا نام’’ ہاری گیت‘‘ ہے۔ ’’ہاری کہانیاں‘‘ وہ کتاب ہے، جس میں کسانوں پر کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ اُنہوں نے اپنے دوستوں کو چند خطوط لکھے تھے، جو اخبارات میں بھی شایع ہوئے۔ چوں کہ وہ ایک بہترین مترجّم تھے، اس لیے سندھی ادبی بورڈ نے کارل مارکس کی تصنیف’’ داس کیپٹل‘‘ کا ترجمہ کرنے کے لیے کہا۔ اُنہوں نے اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا اور ابتدائی 20صفحات کا ترجمہ بھی کیا، مگر کام مکمل نہیں کرسکے۔
قرآن پاک پر یاد گار کام: حیدر بخش جتوئی نے قرآن پاک کا تفصیلی مطالعہ کیا اور پھر اس کا خلاصہ بھی تحریر کیا۔ اس یادگار کام کی تکمیل میں تقریباً 30سال کا عرصہ لگا۔ اس ضمن میں اُنہوں نے بہت سے علمائے کرام سے مشورہ کیا۔ یہ تحقیق دس حصّوں پر مشتمل ہے اور ہر حصّے کے کئی ابواب ہیں۔ انگریزی میں ترجمے کے ساتھ پہلو بہ پہلو ،عربی متن ہے، جس کا حوالہ قرآن پاک سے دیا گیا ہے۔ اس ترجمے و تفسیر کا نام Substance of the Quran) ہے۔
بابائے سندھ 1945 سے 1970ء کے درمیان اُنہیں مختلف اوقات میں سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں نظر بند رکھا گیا۔ وہ تقریباً سات سال تک جیل میں سیاسی قیدی کی حیثیت سے رہے۔ ’’جیل کی اصلاح‘‘ کے زیرِ عنوان ایک تحقیقی مقالہ لکھا، جسے حکومت کو بھی پیش کیا گیا۔اگرچہ اُنہوں نے آزاد رہنے کو ترجیح دی، مگر جب بھی گرفتار ہوئے، تو مسکراہٹ کے ساتھ ہتھکڑیوں کا استقبال کیا۔ جب ’’حیدر منزل‘‘ کراچی کے باہر گرفتار ہوئے، تو شیخ مجیب الرحمان اور دوسرے سیاسی رہنمائوں کو اُن کے چہرے پر مُسکراہٹ دیکھ کر تعجب ہوا۔ کئی بار اُن کی قیام گاہ کی تلاشی لی گئی، اسی لیے اُنہوں نے جان بوجھ کر اپنی مصروفیات کی ڈائری نہیں لکھی۔ گھر سے باہر جاتے، تو خفیہ پولیس والے ان پر نگاہ رکھتے۔ اُن کے کئی قریبی دوستوں نے کئی بار اُنہیں ملنے سے منع کردیا، کیوں کہ اس کے بعد خفیہ پولیس والے مہینوں تک اُن کا پیچھا کرتے تھے۔جنوری 1969ء میں اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر رہائی کے بعد جتوئی صاحب نے سندھ کا دَورہ کیا، جلسے کیے اور وَن یونٹ کے خلاف مظاہرے کرتے رہے۔ سندھ سے محبّت کی بنا پر اُنہیں’’ بابائے سندھ‘‘ کا خطاب دیا گیا، جو سندھ کے عوام سے اُن کی محبّت اور عقیدت کی ترجمانی کرتا ہے۔
وفات: آخری دنوں میں ڈاکٹر خواجہ معیّن نے حیدر بخش جتوئی سے اسپتال میں ملاقات کی، جو اُن کے دیرینہ ساتھی تھے۔ اس موقعے پر اُنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ’’ سندھیوں کو چاہیے کہ جو مہاجر، سندھ کے حقوق کی جدوجہد میں ساتھ رہے اور اس میں حصّہ لیا، وہ ان سب کی قدر کریں۔‘‘حیدر بخش جتوئی 21مئی 1970 ء، بروز جمعرات 69 برس کی عُمر میں داغِ مفارقت دے گئے۔ ساتھیوں نے اُن کے جسم کو سُرخ پرچم میں لپیٹ دیا اور قرآنی آیات پڑھیں اور وصیّت کے مطابق سینٹرل جیل، حیدرآباد کے قریب دفن کیا گیا۔ اُنہوں نے اپنی زندگی میں خود اپنے لیے ایک منظوم عبارت لکھی تھی۔؎’’اے اجل! تُو نے میری ہر ایک رَگ اور خون کی نالیوں کو سرد کردیا…خوش ہوجا، اے دوست! کہ تیرے بغیر زندگی میں آرام ممکن نہ تھا۔‘‘