• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اساتذہ کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں جن کا قوم کی ترقی اور کامیابی میں اہم کردار ہوتا ہے۔ تدریس کے مقدس شعبے سے وابستہ یہ اساتذہ پیسے سے زیادہ عزت کے متمنی ہوتے ہیں جبکہ ان کے شاگرد بھی اُنہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور باپ کا درجہ دیتے ہیں۔ مذہب اسلام میں معلم کے کیا درجات ہیں، اِس کا اندازہ سیدنا حضرت علیؓ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا، میں اُس کا غلام ہوں‘‘۔ زندہ قومیں اپنے اساتذہ کا کتنا احترام کرتی ہیں، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جس کا ذکر معروف دانشور اشفاق احمد نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اشفاق احمد کے بقول ایک دفعہ اٹلی کے شہر روم میں مصروفیت کے باعث وہ وقت پر ٹریفک چالان نہ بھر سکے جس پر اُنہیں کورٹ طلب کیا گیا۔ جج کے استفسار پر جب انہوں نے بتایا کہ میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوں اور کام کی زیادتی کی وجہ سے چالان بھرنے کیلئے وقت نہیں نکال سکا تو یہ سنتے ہی جج سمیت کمرۂ عدالت میں موجود ہر شخص احتراماً کھڑا ہو گیا اور میرا چالان ختم کر دیا گیا‘‘۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان میں اساتذہ کا کیا مقام ہے اور اُن کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے، اس کا اندازہ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی۔ یہ وڈیو جس نے بھی دیکھی، اِس نے اُسے دکھی کر دیا۔ وڈیو میں ایک پولیس اہلکار 6افراد جن کے چہروں پر بے بسی اور شرمندگی صاف ظاہر ہو رہی تھی، کو زنجیروں سے جڑی ہتھکڑیاں لگا کر ایسے لے جا رہا ہے جیسے کوئی جانوروں کا ریوڑ لے جا رہا ہو۔ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگے یہ افراد کوئی پیشہ ور قاتل یا مجرم نہیں بلکہ ملک کے سینئر سٹیزنز تھے اور ان کا تعلق پاکستان کی بہترین یونیورسٹیوں کے شعبہ تدریس سے تھا۔ اِن افراد میں پنجاب یونیورسٹی کے 70سالہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران سمیت یونیورسٹی کے دو رجسٹرار اور تین پروفیسر بھی شامل تھے جن کے ہزاروں شاگرد پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور انہیں اس واقعہ سے شدید صدمہ پہنچا ہے۔ نیب عدالت میں سینکڑوں افراد کے مجمع کی موجودگی میں ہتھکڑی لگے اِن اساتذہ کی کیفیت یہ تھی کہ اُن کیلئے ایک ایک قدم اٹھانا مشکل ہورہا تھا۔ وہ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں کہ کاش ابھی زمین پھٹے اور وہ اِس میں زندہ دفن ہو جائیں۔

ہتھکڑیاں لگی یہ وڈیو سوشل میڈیا پر جب وائرل ہوئی تو اساتذہ کی سرعام تضحیک اور تذلیل پر لوگوں میں شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی وڈیو دیکھ کر صدمہ پہنچا ہے جنہوں نے واقعہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی نیب لاہور کو فوری طور پر عدالت میں طلب کیا۔ چیف جسٹس نے اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانے پر ڈی جی نیب پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اساتذہ کی تضحیک اور بے عزتی ہرگز برداشت نہیں کر سکتا، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قوم کے معماروں کو تعلیم دی ہے، آپ نے کس قانون کے تحت اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگائیں اور اُن کی تضحیک کی؟ نیب نے آج تک لوگوں کی تضحیک کرنے کے سوا کوئی کیس حل نہیں کیا، ایسا لگتا ہے کہ نیب کو لوگوں کی تذلیل کرنے اور پگڑیاں اچھالنے کا ٹھیکہ ملا ہوا ہے‘‘۔ جس پر ڈی جی نیب نے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے ڈاکٹر مجاہد کامران اور اُن کے ساتھیوں کو سیکورٹی خدشات کے پیش نظر ہتھکڑیاں لگائی تھیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران اور اُن کے ساتھیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے خلاف قواعد من پسند افراد کی بھرتیاں کی ہیں۔

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کا شمار ملک کے بہترین ججوں میں کیا جاتا تھا لیکن جب سے انہوں نے نیب کی باگ ڈور سنبھالی ہے، ایسا لگتا ہے کہ نیب افسران کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ سینئر اساتذہ کے ساتھ نیب افسران کے تضحیک آمیز سلوک سے چیئرمین نیب اور ادارے کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے جو عوام میں غیر مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ مذکورہ بالا واقعہ اگر کسی دوسرے ملک میں پیش آتا تو وہاں نیب جیسے ادارے کا سربراہ مستعفی ہو جاتا مگر شاید پاکستان میں ایسی کوئی روایت نہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیات اور اساتذہ سے عادی مجرموں جیسا سلوک قطعاً مناسب نہیں۔ نیب کے اِن اقدامات سے عوام میں اضطراب پھیل رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے جبکہ نیب اپنے رویے اور طریقۂ کار میں تبدیلی لاتے ہوئے لوگوں بالخصوص اساتذہ کی تضحیک و تذلیل کرکے اُن کے میڈیا ٹرائل کا سلسلہ بند کرے اور ایک مہذب سوسائٹی ہونے کے ناتے دوسروں کے حقوق کا خیال رکھے لیکن اگر شرفا اور معزز شخصیات کی تضحیک و تذلیل اور الزام ثابت ہونے سے پہلے کسی کو مجرم بنانے کا یہی سلسلہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب عوام کا نیب پر اعتماد اٹھ جائے گا۔

قلم والے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی دیکھ کر ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اس درد انگیز واقعہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے، کم ہے۔ قانون کی پاسداری کرنے والوں کی اخلاقی گراوٹ اور ایڈونچرازم کا اس سے زیادہ دل گرفتہ سانحہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اساتذہ کو قاتل اور سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کی طرح عدالت میں پیش کیا جائے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران اور دیگر اساتذہ نے اگر کرپشن کی ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئے مگر اس طرح ہتھکڑیاں لگا کر میڈیا ٹرائل کرنا انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے جس سے دنیا بھر میں پاکستان کا منفی تاثر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ پاکستان میں اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری اور زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو بھی ہتھکڑیاں لگا کر ان کی تضحیک کی گئی تھی۔

المیہ یہ ہے کہ یورپ میں اشفاق احمد کو دیکھ کر جج سمیت کمرۂ عدالت میں موجود تمام افراد احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں مگر افسوس کہ ’’نئے پاکستان‘‘ میں قلم والے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی دیکھ کر لوگوں نے ان اساتذہ کے ساتھ سیلفیاں بنانا شروع کر دیں۔ اگر یہ افراد سیلفیاں بنانے کے بجائے اساتذہ کے ساتھ ہتک آمیز سلوک پر احتجاج کرتے تو نیب کو آئندہ کسی کی اس طرح تضحیک کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ میں اپنے کالم کے توسط سے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور دیگر اساتذہ سے قوم کی طرف سے معافی کا طلبگار ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ نیب کے تضحیک آمیز سلوک سے اُن کی عزت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اُن کے وقار میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین