• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اپنے ایک دوست کو کبھی بہت خوش اور کبھی بہت پریشان دیکھتا ہوں۔ ایک دن وہ خوش نظر آیا تو میں نے اس کی خوشی کی وجہ پوچھی، بولا آج صبح سو کر اٹھا، گھر سے باہر نکلا تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، دل خوش ہوگیا اور ابھی تک اس ٹھنڈی ہوا کی سرشاری میں ہوں۔ ایک دن یہی دوست بہت پریشان دکھائی دیا تو میں نے پوچھا خیریت تو ہے،بہت پریشان دکھائی دے رہے ہو، کہنے لگا آج چلتے چلتے میرا پائوں پھسل گیا، میں نے گھبراہٹ کے عالم میں کہا کوئی زیادہ چوٹ تو نہیں لگی، بولا نہیں، مگر میرے گرنے پر لوگ ہنس رہے تھے، مجھے ابھی تک ان کی ہنسی سنائی دے رہی ہے۔

دراصل خوش رہنا اور پریشان ہونا بہت سی صورتوں میں انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے، مثلاً اگر میں خوش رہنا چاہوں تو اس کے لئے یہ احساس کافی ہے کہ مجھے کوئی بڑی پریشانی لاحق نہیں اور اگر پریشان ہونے کی خواہش دل میں جاگے تو کسی دوسرے کو خوش دیکھ کر بھی پریشان ہوا جا سکتا ہے۔ مگر اللہ جانے میں آج کیوں پریشان ہوں، میں اس پریشانی کے بارے سوچتا ہوں تو بظاہر اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ میں نے سیانوں سے سنا ہے کہ اپنی پریشانی کسی سے شیئر کرو تو دل کا بوجھ ہلکاہو جاتا ہے۔ چنانچہ اسی خیال کے پیش نظر میں آپ کو اپنی پریشانی بتانے جا رہاہوں۔ شاید میرا مسئلہ حل ہو جائے۔

اس پریشانی کی ایک وجہ تو وہ چند چٹیں ہیں جو میری مختلف جیبوں سے برآمد ہوئی ہیں۔ بظاہر اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں مگر میں نے اس لئے بھی پریشان ہونا مناسب سمجھا کہ بہت دنوں سے کسی مسئلہ پرپریشان نہیں ہوا تھا۔ یہ چٹیں خاصی مختلف قسم کی ہیں اور الجھن کی وجہ یہ ہے کہ ان کا حدود اربعہ اور محل وقوع وغیرہ ذہن میں نہیں آ رہا۔

مثلاً ایک چٹ پر8182لکھا ہے۔ پریشان میں اس لئے ہوں کہ اکیاسی بیاسی کی گنتی کی نوبت اسکول کے دور میں آتی ہے۔ تاہم ذہن پر ذرا زور ڈالنے سے مجھے یاد آیا کہ یہ ہندسے گنتی کے لئے نہیں لکھے گئے تھے بلکہ یہ کسی عزیز کا رول نمبر ہے جو اس نے اپنا رزلٹ جاننے کے لئے لکھوایا تھا۔ میں نے یہ بھی سوچا ممکن ہے یہ کسی دوست کا موبائل نمبر ہو جس کے ابتدائی ہندسے لکھنے مجھے یاد نہ رہے ہوں اور اس کا نام میرے ذہن سے اتر گیا ہو، میں نے اپنی بہترین یادداشت کو آزمایا اور پورا نمبر یاد آگیا، چنانچہ میں نے اس نمبر پر رنگ کیا تو کسی عبدالغفور صاحب نے فون اٹھایا اور واضح رہے کہ میں کسی عبدالغفور کو نہیں جانتا۔

ایک چٹ پر 363436لکھا تھا، جب کچھ سمجھ نہ آئی تو میں نے سوچا کہ ممکن ہے ہندسے لکھتے ہوئے میں بیچ میں ڈیش 36-34-36ڈالنا بھول گیا ہوں مگر اس صورت میں تو یہ خاصی مخرب الاخلاق چیز معلوم ہوتی ہے۔ سو میں خاصی بھول بھلیوں میں پڑ گیا ہوں لہٰذاآپ سب دوستوں سے درخواست ہےکہ وہ ان چٹوں کے سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیںورنہ میں پاگل یعنی مزید پاگل ہو جائوں گا۔ یا جن کی چٹیں ہیں وہ مجھ سے خود رابطہ کریں۔

اسی طرح ایک چٹ پر ’’بسلامت روی‘‘ لکھا ہوا ہے میں نے متعدد بار اپنے چند بےراہرو دوستوں کو ٹرین پر چڑھاتے ہوئے بسلامت روی کہا ہے بلکہ کئی ایک کو باز آئی بھی کہا مگر وہ باز نہیں آئے۔ لیکن ان الفاظ کا جیب میں سے برآمد ہونا ناقابل فہم ہے۔ سوچ سوچ کر مجھے صرف اتنا یاد آیا ہے کہ ایک دوست بہت عرصے سے کرنل محمد خان کی کتاب بسلامت روی پڑھنے کے لئے مانگ رہے تھے۔ میں نے متعدد بار ان سے وعدہ کیا مگر ہر بار حافظے کی کمزوری کا بہانہ بنا کر ٹال گیا اس پر انہوں نے کتاب کا نام لکھ کر میرے جیب میں ڈال دیا۔ مگر اپنا نام لکھنا بھول گئے۔ اب مجھے یاد نہیں آ رہا کہ یہ دوست کون ہیں کیونکہ یہ وعدہ تو میں نے کئی اور دوستوں سے بھی کیا ہوا ہے۔

ان چٹوں کے علاوہ ایک ایسی چٹ بھی میری جیب سے برآمد ہوئی ہے جس نے مجھے بطور خاص پریشان کیا ہے ۔ یہ کسی گھر کا ایڈریس ہے بلکہ اس کے ساتھ پورا نقشہ بھی بنا ہوا ہے۔ میں یہ چٹ سامنے رکھ کر گھنٹوں سوچتا رہا کہ یہ کس کا گھر ہے جب کچھ پلے نہ پڑا اور یہ الجھن سردرد میں تبدیل ہوگئی تو میں نے جھنجھلاہٹ کے عالم میں گاڑی اسٹارٹ کی اور نقشے کی پیروی کرتے ہوئے بالآخرایک گھر کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ تحقیق و تفتیش کی تو پتلا چلا کہ یہاں پاگل کتوں کے کاٹے کا شرطیہ علاج ہوتا ہے۔ اب خدا جانے کس پاگل کتے نے یہ چٹ میری جیب میں ڈالی ہے۔

اسی طرح کی ایک اور چٹ بھی میری جیب سے نکلی ہے اس پر صرف خادم حسین لکھا ہوا ہے اب اللہ جانے یہ خادم حسین کون صاحب ہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں تو ایک سے ایک خادم پڑا ہوا ہے جس میں خادم قوم اور خادم ملت وغیرہ بھی شامل ہیں۔

تاہم ایک چٹ ایسی بھی میری جیب سے برآمد ہوئی ہے جو میری خصوصی توجہ کا باعث بنی ہوئی ہےاس پر ’’حسینۂ عالم‘‘ لکھا ہوا ہے۔ ممکن ہے حسینہ نام کی کوئی خاتون ہو جس کے والد کا نام عالم ہو اور یوں وہ حسینہ عالم کہلاتی ہو بلکہ ممکن ہے سمجھتی بھی ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ چٹ میری جیب میں کیوں پڑی ہے۔ میں نے اس کے بارے میں خودبھی بہت سوچا ہے۔ دوستوں سے بھی رہنمائی حاصل کی ہے مگر ابھی تک مشکل کشائی نہیں ہوسکی۔ چٹوں کی برآمدگی کے علاوہ ایک پریشانی بلکہ بہت سی پریشانیاں اور بھی ہیں اور مجھے پریشانی یہ ہے کہ وہ پریشانیاں یاد نہیں آرہیں۔یہ کیسی پریشانیاں ہیں جو یاد ہی نہیں آرہیں۔ میرے خیال میں ہم بہت معمولی معمولی باتوں کو پریشان کن بنا لیتے ہیں مگر چونکہ ان پریشانیوں میں ’’جان‘‘ نہیں ہوتی۔ چنانچہ یاد کریں تو یاد بھی نہیں آتیں!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین