• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کا نیب کے کالے قانون میں بہتری اور اصلاحات پر غور

اسلام آباد(انصار عباسی) وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کی زیر قیادت تشکیل دی جانے والی کمیٹی نے قومی احتساب بیورو (نیب)، وزارت قانون، وزارت داخلہ اور دیگر متعلقہ اداروں سے نیب کے قانون میں تبدیلی لانے کیلئے تجاویز طلب کر لی ہیں تاکہ احتساب کے نظام میں بہتری لائی جا سکے، یہ ایک ایسا نظام ہے جس کا متعدد مرتبہ سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنانے کیلئے غلط استعمال کیا گیا ہے اور ساتھ ہی سرکاری ملازمین اور کاروباری طبقے کو بھی تنگ کیا جاتا رہا ہے۔ اگرچہ یہ فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے کہ نیب کا دائرہ اختیار ججوں اور جرنیلوں کے احتساب تک نہیں بڑھایا جائے گا لیکن نیب چیئرمین کے کسی شخص کو گرفتار کرنے کے حوالے سے اختیار کو کسی حد تک محدود کرنے پر غور کیا جائے گا۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف سرکاری اجلاسوں میں، وزیراعظم عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین اور کاروباری طبقے کو تنگ کرنے کی سب سے بڑی وجہ نیب کے بلا روک ٹوک اقدامات اور اختیارات کا غلط استعمال ہے۔ وزیراعظم نیب کو کرپشن کے بڑے اسکینڈلز کے معاملات تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔ ایک سرکاری ذریعے کا کہنا ہے کہ نیب چیئرمین کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہیں جنہیں کالا قانون سمجھا جاتا ہے، ان اختیارات کے استعمال سے چند معاملات میں ملزم کے بنیادی حقوق کو نقصان ہوتا ہے۔ تاہم، چیئرمین پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تمام نیم عدالتی اور انتظامی اختیارات چیئرمین کو حاصل ہیں اور دیگر قوانین کی طرح چیئرمین کے اختیارات مختلف سطحوں میں تقسیم نہیں کیے گئے بلکہ چیئرمین کی صوابدید پر منحصر ہوتے ہیں۔ قانون کے مطابق وہ اس بات کے مجاز ہیں کہ وہ کوئی بھی کیس شروع کر سکیں اور کسی بھی شخص کو کسی بھی مرحلے پر گرفتار کرا سکیں۔ اگر کسی پر شک ہو کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے تو ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ہی چیئرمین کسی ملزم اور ساتھ ہی اس کے رشتہ داروں کی جائیداد منجمد کرا سکتے ہیں۔ ملزم کے بری ہونے کے بعد پراپرٹی از خود غیر منجمد نہیں ہوتی۔ انکوائری کے دوران رضاکارانہ واپسی کی اجازت دیتے ہوئے نیب چیئرمین کسی بھی ملزم کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں، پلی بارگین کی اجازت دے سکتے ہیں، حتیٰ کہ ٹرائل اور اپیل کے زیر التوا ہونے کے دوران ہی وہ ان اقدامات کی اجازت دے سکتے ہیں، کوئی عدالت نہیں بلکہ چیئرمین نیب فیصلہ کرتے ہیں کہ کتنے اثاثے یا فنڈز واپس کرنا ہیں۔ لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے حوالے سے شرائط و ضوابط کا فیصلہ کرنا بھی ان کی صوابدید پر منحصر ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ، اسی طرح چیئرمین کے پاس ملازمین بشمول پراسیکوٹر جنرل کے دفتر کے ملازمین کی بھرتی اور انہیں برطرف کرنے کے بھی اختیارات ہیں اور اس طرح انہیں انکوائری، انوسٹی گیشن اور ٹرائل کے تمام پہلوئوں کو کنٹرول کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے۔ پراسیکوٹر جنرل کی غیر موجودگی میں، چیئرمین کسی بھی لا افسر کو پراسیکوٹر جنرل کے طور پر کام کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قانون آمرانہ دور میں اس خیال کے تحت بنایا گیا تھا کہ چیئرمین نیب اور ایسے افراد جنہیں اختیارات تفویض کیے گئے ہوں وہ سب اخلاق کی اعلیٰ ترین بلندیوں پر موجود ہیں اور وہ قانون کی کوئی خلاف ورزی کر ہی نہیں سکتے، یہ آمرانہ دور کے حکمرانوں کا نظام سے کرپشن کے خاتمے کیلئے اپنے نامزد کردہ افراد کے متعلق تھا۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ چونکہ کوئی روک ٹوک نہیں، کوئی آڈٹ نہیں ہوتا اسلئے سچ دور کی بات ہے، اختیارات کا ایک جگہ مرتکز ہونا اور کرپشن کے سمندر میں ایمانداری کی کرن کے خیال نے ہر تبدیل ہونے والے چیئرمین کے دور میں نیب کے رویے اور کارکردگی کو غیر متوازن رکھا ہے۔ گزرتے وقت کے دوران کرپشن کے رسائو، اوسط درجے کے نا تجربہ کار اور بداخلاق افرادی قوت اور کام کرنے کے خراب ماحول (poor work culture)، جس میں کمزور مقدمات دائر کرنا شامل ہے، کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اختیارات کا ناجائز استعمال ہو رہا ہے، جبکہ اسی موقع پر ادارے کو لوگوں کو نشانہ بنانے اور سیاسی ہیرا پھیری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ میڈیا مینجمنٹ کے تحت جھوٹے مقدمات دائر کرنا مقاصد کے حصول کی بنیادی تکنیک ہے، اور چونکہ ادارے میں اندرونی احتساب کا کوئی نظام نہیں اسلئے بظاہر اس عمل میں خرچ بھی کوئی نہیں ہوتا۔ سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ قانون اس قدر خوفناک ہے کہ اس کی مدد سے انتہائی طاقتور شخص کو بھی جھکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے لیکن جب اسی قانون کا کہر کسی معصوم یا متوسط شہری پر نازل ہوتا ہے تو اس بات کو یقینی بنایا جا تا ہے کہ وہ شخص اور اس کے اہل خانہ تباہ و برباد ہو جائیں۔ کہا جاتا ہے کہ نیب قانون آئین سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ بارِ ثبوت ملزم پر ہوتا ہے۔ وائٹ کالر کرائم کے معاملے میں 90؍ روزہ جسمانی ریمانڈ، ضمانت کی اجازت نہ ہونے اور جیل میں ہونے کے بعد قانونی چارہ جوئی کے مہنگے اخراجات کے بعد لوگوں کو پلی بارگین پر مجبور کیا جاتا ہے حتیٰ کہ لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی بھی دینے کو تیار ہوتے ہیں تاکہ عذاب سے جان چھوٹ سکے۔ کہا جاتا ہے کہ نیب آرڈیننس 1999ء میں بنیادی حقوق کو تحفظ نہ دیے جانے کی وجہ سے گرفتاری کے نتیجے میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں جنہیں ’’تاوان کیلئے اغوا‘‘ کی منظم واردات کہا جا سکتا ہے۔ جس میں پلی بارگین ہی بظاہر بے قصور یا قصور وار کیلئے جان چھڑانے کا واحد راستہ ہوتا ہے۔ ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں جن میں معصوم افراد نے 90؍ روزہ ریمانڈ کی اذیت سے بچنے کیلئے پلی بارگین پر آمادگی ظاہر کی اور انہوں نے اپنی زندگی بھر کی قانونی اور جائز جمع پونجی نیب کے حوالے کر دی تاکہ وکیلوں کے اخراجات سے اور ذریعہ آمدنی اور تعلقات کے محروم ہونے سے بچ سکیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ملزم کیلئے ہائی کورٹ سے ضمانت لینے کیلئے ایک یا ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ جاتا ہے چاہے وہ ملزم معصوم ہی کیوں نہ ہو، وجہ یہ ہے کہ نیب قانون میں ضمانت ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک ذریعے نے نشاندہی کی ہے کہ نیب والے نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ بدسلوکی کی وجہ سے ہی سرمایہ کاروں کا اعتماد اٹھ گیا ہے اور جب تک رجعت پسندانہ احتساب کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس وقت تک امکان نہیں کہ سرمایہ کار حکومت کے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ، جوائنٹ وینچرز اور نجکاری کے بینر تلے شروع ہونے والے منصوبوں میں شامل ہوں گے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ تعمیر و ترقی کیلئے احتساب ایک ضروری شرط ہے، لیکن یہ شفاف، انسانی اور عدل پر مبنی ہونا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر شفاف انداز سے مقدمہ پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور صورتحال منصفانہ ہو تو سرمایہ کاروں کو احتساب سے خوف نہیں۔ لیکن گرفتاری کے بلا روک ٹوک اختیارات اور اختیار کیے جانے والے طریقے، 90؍ روز تک جیل میں ڈالنے، ٹارچر، توہین اور فرد جرم عائد کیے بغیر جھوٹی معلومات پھیلانے جیسے اقدامات ناقابل قبول سمجھے جاتے ہیں۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے کہ نیب حکام کو ان اقدامات کے حوالے سے قانوناً تحفظات (استثنیٰ) دیا گیا ہے کہ ان کے متاثرین ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے لیکن متاثرین دیگر قوانین کے تحت اسی طرح کے استثنیٰ کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ کوئی سرکاری ملازم مالیاتی، پروکیورمنٹ یا ملازمین کی بھرتی کے فیصلے انفرادی طور پر نہیں کرنا چاہتا حتیٰ کمیٹی میں بیٹھ کر بھی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ پنجاب کی سرکاری کمپنیوں کی انتظامیہ، بورڈ ارکان، پروکیورمنٹ کمیٹیوں کیخلاف نیب کارروائیاں کر رہا ہے۔

تازہ ترین