• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بلوچستان میں غربت کی شرح دیگرصوبوں کی نسبت سب سے زیادہ


یہ تلخ حقیقت ہے کہ قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالامال بلوچستان کےبیشترعوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔یہی نہیں بلکہ صوبے میں غربت کی شرح میں روزبروز اضافہ ہورہاہے ۔

بلوچستان میں غربت کی وجوہات کاجائزہ لیاجائے تو ان میں ماضی کی حکومتی پالیسیوں ،عدم توجہی ، بدانتظامی اور ناقص منصوبہ بندی اور ان کے نتیجے میں بنیادی سہولتوں کےفقدان کو بڑی وجوہات قرار دیاجاسکتاہے۔

ان سب وجوہات نےمل کر بلوچستان میں پسماندگی اور غربت کو جنم دیا۔صوبے میں غربت کااندازہ کچھ عرصہ قبل یواین ڈی پی کےتعاون سے کئے گئے ملٹی ڈائمینشنل انڈیکس سے لگایاجاسکتاہے جس کےمطابق صوبے کی دوتہائی اکثریت ہمہ جہت غربت کاشکار ہے۔

اس رپورٹ سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ صوبےمیں تقریباً 71فیصد لوگ غربت کی لکیر کےنیچے زندگی بسرکررہےہیں۔بلوچستان میں غربت اور لوگوں کےمعیارزندگی کااندازہ لگانے کےلئے یہی کافی ہے کہ صوبے میں صرف بیس فیصد افراد کو پینےکےصاف پانی تک رسائی حاصل ہےجبکہ صحت کااندازہ ماؤں اور بچوں کی سب سےزیادہ شرح اموات اور تعلیم کااندازہ لگ بھگ بیس لاکھ بچوں کےاسکولوں سے باہر ہونے اور سب سے کم شرح تعلیم سے بخوبی لگایاجاسکتاہے۔

ماہر غذائیت اور محکمہ صحت کےتحت نیوٹریشن سیل کےانچارج ڈاکٹرعلی ناصر بگٹی کےمطابق بلوچستان میں پچاس فیصد سے زائد خواتین اور بچے غذائی قلت کاشکار ہیں۔ڈاکٹرعلی ناصر بگٹی کاکہناتھا کہ قومی غذائی سروے کے مطابق صوبے میں تقریباً اننچاس فیصد ماؤں اور ستاون فیصد بچوں میں خون کی کمی پائی گئی تاہم اس صورتحال کے پیش نظر یونیسیف کےتعاون سے مختلف علاقوں میں ایک منصوبہ شروع کیاگیاہے۔

ماہر سماجیات اور معاشیات پروفیسر عارف محمود کےمطابق صوبے میں غربت کی ایک بڑی وجہ روزگار کےبھرپورمواقع کانہ ہوناہے۔ان کاکہناتھا کہ لوگوں کےپاس روزگار نہیں ہے،،زیادہ تر لوگ چونکہ دیہاتوں میں رہتے ہیں اور ان کاروزگار زراعت اور لائیواسٹاک سےوابستہ ہےمگر کچھ سالوں سے خشک سالی کی وجہ سے یہ دونوں شعبے بھی متاثر ہوئےہیں۔

صوبے میں بڑی صنعتیں نہیں ہیںاور نہ ہی کوئی کارپوریٹ سیکٹر اورغیرسرکاری ادارے ہیں۔لوگوں کاانحصار اپنے کاروباراورسرکاری ملازمتوں پر ہے جو بہرحال بہت محدود ہیں۔پروفیسر عارف محمود کاکہناتھا کہ مناسب روزگار نہ ہونےکی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید نہیں ہے اور رہی سہی کثر روزافزوں مہنگائی نے پورا کردی ہے۔مہنگائی نے تو غریب طبقے کےعلاوہ متوسط طبقے کی قوت خرید کو بھی بے حد متاثر کیاہے۔

بلوچستان حکومت صوبے میں غربت اورپسماندگی کےمسائل کےحوالےسےماضی کی حکومتوں کی پالیسیوں ،بدانتظامی ،ناقص منصوبہ بندی،غیرسنجیدگی اور وفاق میں صوبےکےلئے کم وسائل کو زمہ دار ٹہراتی ہے۔

اس حوالےسےوزیراعلیٰ بلوچستان جسام کمال کاحال ہی میں صوبائی اسمبلی میں اظہارخیال کےدوران کہناتھا کہ ہمیں صوبے میں لوگوں کےمسائل کاادراک ہےاور ہم صورتحال میں بہتری کی کوشش کررہے ہیںتاہم مالی مسائل اس کے آڑے آرہے ہیں۔ہمیں این ایف سی ایوارڈ میںحزب اختلاف سے مل کر ایک موثر حکمت علمی کےتحت صوبےکےزیادہ سےزیادہ حصہ کےلئے جدوجہد کرناہے۔

وزیراعلی بلوچستان کا کہناتھا کہ لوگوں کو ہم سےبہت سی توقعات اور امیدیں ہیں اور ہمیں ان پر پورا اترناہے۔اوراگر خدانخواستہ ان پر پورا نہ اترے تو لوگوں کےاحساس محرومی میں اضافہ ہوگا۔اسی حوالےسے حزب اختلاف سےتعلق رکھنےوالےبلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کےرکن اسمبلی ثناء اللہ بلوچ کا مطالبہ تھا کہ آئندہ این ایف سی ایوارڈ میں وفاق سے وسائل کےحصول کےلئے آبادی کےساتھ رقبے ، قدرتی وسائل اور غربت اور پسماندگی کو بطور معیار شامل کیاجائےجب تک ایسانہیں ہوگا صوبے سے پسماندگی اور غربت کاخاتمہ ممکن نہیں۔

عوام کا کہنا ہے کہ وسائل سے مالامال صوبہ بلوچستان میں بڑھتی مہنگائی یقیناً ایک لمحہ فکریہ ہے،حکومت کو غربت کےخاتمے کےلئے دعوؤں کی بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین