• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصور میں سات سالہ معصوم زینب کے قتل کے واقعہ کے بعد مشتبہ فرد کی گرفتاری، بعدازاں پولیس تفتیش، عدالتی کارروائی اور اپیل کے مختلف مراحل سے گزر کر ایک سال سے بھی کم وقت میں مجرم کی سزایابی کو بروقت انصاف کی ایک ایسی مثال کہا جاسکتا ہے جس میں تمام متعلقہ محکموں اور اداروں نے قابل رشک کردار ادا کیا۔ اس مثال کو بیشتر جرائم کی تفتیش اور دیگر امور میں سامنے رکھا جائے تو جرائم کی شرح کم کرنے اور نظام انصاف پر عام آدمی کا اعتماد مستحکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ عمران علی کو 17؍اکتوبر کی صبح ساڑھے پانچ بجے کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دیدی گئی۔ جنوری 2018ء میں سات سالہ زینب کو بہیمانہ ظلم کا نشانہ بناکر قتل کیا گیا تھا جس کے بعد اسی نوع کے دیگر واقعات کے تناظر میں عوامی سطح پر خوف اور تشویش کی ایک کیفیت محسوس کی جارہی تھی۔ تاہم پولیس، ایجنسیوں فرانزک لیب اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نہ صرف ملزم کا سراغ لگا لیا بلکہ دو ہفتوں میں محنت شاقہ کے بعد اہم شواہد بھی حاصل کرلئے۔ مبینہ سیریل کلر کی گرفتاری کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے جو باتیں بتائی گئیں ان کے مطابق زینب کے قتل میں ماخوذ فرد نے 7دیگر بچیوں کے بھی اسی انداز میں قتل کا اعتراف کیا تھا۔ مجرم عمران، جو اکثر محلے کے بچوں کو ٹافیاں اور چاکلیٹ دیا کرتا تھا، والدین کی عمرہ سے واپسی کی اطلاع دے کر بچی کو اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ لاش، جسم اور کپڑوں سے حاصل کردہ ڈی این اے سے سو فیصد میچ کرگیا تھا۔ 16اکتوبر کو لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سردار شمیم احمد خان اور جسٹس شہباز علی رضوی پر مشتمل بنچ نے زینب کے والد حاجی امین کی ایک درخواست کی سماعت کی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ مجرم کو سرعام پھانسی دی جائے۔ مگر عدالت نے یہ درخواست مسترد کر دی۔ دوران سماعت بینچ نے ریمارکس دیئے کہ سرعام پھانسی کا معاملہ حکومت کا ہے اور ہم حکومت نہیں۔ زینب قتل کیس کے مجرم کے ایک سال سے بھی کم عرصےمیں کیفر کردار کو پہنچنے سے زینب کے اہل خانہ کو اگرچہ ان کی بچی واپس نہ مل سکی تاہم انہیں، دیگر بچوں کے والدین اور ملک بھر کے لوگوں کو یہ اطمینان ضرور حاصل ہوا ہے کہ ہمارا نظامِ قانون و انصاف بہتری کی راہ پر گامزن ہے اور مظلوموں کی بروقت داد رسی کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ یہ امیدیں بھی قوی ہوئی ہیں کہ موثر احتیاطی اقدامات بروئے کار لاکر بچوں کے اغواء، تشدد، جنسی زیادتی، جبری مشقت، اپاہج بناکر بھیک منگوانے، بیرون ملک فروخت کرنے، جسمانی اعضاء چوری کرنے اور میتوں کے منشیات کی اسمگلنگ میں استعمال کا وہ باب بند کیا جاسکتا ہے جو عشروں سے وقتاً فوقتاً خبروں کا موضوع بنتا رہا ہے۔ پچھلے برسوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں سے شیر خواروں سمیت بچوں کی چوری اور اغواء کی خبریں آتی رہی ہیں جو اس برس اس حد تک جا پہنچیں کہ مائوں کی گودوں سے بچے چھین لئے گئے۔ ان کی روک تھام کے لئے بلاشبہ سرکاری سطح پر اقدامات کئے جانے چاہئیں مگر گھروں میں، اسکولوں میں اور محلوں کی سطحوں پر اس ضرورت سے انکار ممکن نہیں کہ بچوں کو زیادہ وقت دیا جائے اور ان پر نظر رکھی جائے۔ والدین ماضی کی طرح بچوں کو ایسی کہانیاں سنائیں اور اساتذہ و علما ایسی رہنمائی دیں جن سے بچوں میں اپنے تحفظ کا شعور بڑھے۔ قتل کے مقدمات میں، بالخصوص دہشت گردی کیسوں میں لواحقین، گواہوں اور ججوں کے تحفظ کے لئے کئی ملکوں میں ایسے اقدامات کئے گئے ہیں جس سے وطن عزیز میں بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں مقتولین کے ورثاء کو حصول انصاف کے لئے جن مشکلات، مالی زیر باری، دھمکیوں اور دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ انہی خاندانوں کو ہوسکتا ہے جنہیں اپنے پیاروں سے بچھڑنے کے بعد مسائل کے پہاڑ بھی سر کرنا پڑے ہیں۔ لواحقین کو معافی کے مطالبے کے ساتھ جن دھمکیوں اور خطرات کا سامنا رہتا ہے انہیں ان سے بچانے کی موثر تدابیر ضروری ہیں جبکہ قانونی و عدالتی مراحل کی جلد شفاف تکمیل کے لئے قانون سازی پر بھی توجہ دی جانی چاہئے۔

تازہ ترین