• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت دنوں کی بات ہے حیدرآباد سندھ شہر کے سول لائنز میں ایک انقلابی پیدا ہوا تھا۔ اس انقلابی کا نام سلیم اکبر قاضی تھا۔ اس انقلابی کا والد ہر حکومت وقت کے ساتھ اور یہ نوجوان کامریڈ۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ تھا۔ اس نوجوان کا والد پہلے پرتگال میں سفیر اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے ہاتھوں چالیس سے زائد اخبارات، کتب و رسائل پر پابندی کے خلاف اپیلیں سننے والے اسپیشل ٹربیونل کا سربراہ۔ اور بندش شدہ مذکورہ مطبوعات میں سے کئی اب بھی زیر بندش ہیں یہ اک الگ کہانی ہے۔

یہ وہ دن تھے جب کبھی ٹھٹھہ شہر میں آگ لگانے والے پرتگالی مداخلت کار انگولا سے شکست کھا کر نکلے تھے تو سندھی شاعر شیخ ایاز نے اس پر ایک نظم کچھ اس طرح لکھی تھی:

پرتگال میں رہنے والو

جوئے خون میں بہنے والو

صدیاں بیتی تم نے جب

ٹھٹھہ میں آگ لگائی تھی

اور میرے لب پہ دہائی تھی

ہاں انہی دنوںپرتگال میں پاکستان کے سفیر کا یہ بیٹا اپنے سول لائنز والے گھر میں بھٹو حکومت کو مطلوب باغی انقلابی نوجوان چھپا کر ٹھہراتا تھا جن میں معروف انقلابی نوجوان نذیر عباسی بھی ہوا کرتاتھا۔ اگرچہ منہ میں سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہونیوالے اس انقلابی نوجوان کا ایک آبائی پیشہ اخبار کی اشاعت بھی تھا۔ لیکن روایتی اشتہاری اخبار جو ایک اشتہار کی خاطر انفارمیشن افسر سے بھی بنا کر رکھتا تھا۔ اب اس نوجوان انقلابی نے سندھی اخبارمیں ایک غیر روایتی لیکن عملی صحافت کی داغ بیل ڈالنے کی ٹھانی۔ ایک اخباری خواب دیکھا۔ اس اخبار کا نام تھا ’’سندھ نیوز‘‘۔ سندھ میں اس نئے اخبار کیلئے اس کے بانی نے پہلا مدیر سندھ کے منجھے ہوئے صحافی شیخ عزیز کو مقرر کیا۔ شیخ عزیز سندھ کا ایک وکھرے ٹائپ کا جدید صحافی اور ترقی پسند انسان،اعلیٰ ادبی و تہذیبی ذوق اور تاریخ کا انتہائی ادراک رکھنے والا صحافی۔شیخ عزیز کی سندھ نیوزٹیم میں اکثر پڑھے لکھے تخلیقی اور انقلابی ذہن، بائیں بازو کے نوجوان ادارتی عملے، نیوز روم اور رپورٹر رکھے گئے تھے۔ اس اخبار کی کہانی ستر اورا سی کی دہائیوں کی ہندی آرٹ فلموں کی طرح شروع ہوتی اور ختم ہوتی ہے۔ یہیں سے سلیم قاضی کی کہانی ختم اور شیخ عزیز اور سلیم قاضی کے کامریڈوں کی بطور اخباری شروع ہوتی ہے۔ سہیل سانگی، سیف بنوی، جاوید مرزا، امداد چانڈیو، زاہد مخدوم (سندھ آبزرور)، صالح بلو، منصور میرانی، آفتاب نظامانی ( جسے انیس سو اٹھاسی میں لسانی فسادات میں کرفیو کے دوران لطیف آباد میں اسوقت قتل کیا گیا جب وہ اپنے ایک ساتھی کو اسکے گھر تک چھوڑنے گیا تھا)، شمشیر خاصخیلی، محب علی ( جسے ان دنوں اسکے محلے ٹنڈو ٹھوڑو کے کچھ منچلے نوجوان پڑوسی بینظیر بھٹو سے تشبیہ دیتے کہ اس نوجوان کے بالوں کا اسٹائل اور چہرہ اسوقت کی بینظیر سے کافی مشابہت رکھتا تھا)، استاد گل ( یہ زمانہ اخباری دفاتر مین مشین مینوں کمپوزروں اور کاتبوں کا تھا ۔

قاضی سلیم نے اپنے اس اخبار کیلئے پرنٹنگ مشین شاید جرمنی سے درآمد کی اور جب یہ مشین وہ کراچی سے لیکر براستہ سپرہائی وے حیدرآباد آرہا تھا تو کار حادثے کا شکار ہوکر ہلاک ہوگیا لیکن قاضی سلیم کے کئی ساتھی اور خاندان والے اسے آج بھی حادثہ ماننے کو تیار نہیں۔ چہ جائیکہ اس خونی شاہراہ اور دیگر سڑکوں نے سندھ اور ملک کے ہزاروں گھروں کے چراغ بجھا دئیے ہیں۔ سلیم قاضی جیسے سینکڑوں ذہنی اثاثے چھینے ہیں۔ پہیوں کی دہشت گردی۔ لیکن قاضی سلیم کے اس خواب کا سفر جاری رہا۔ شیخ عزیز کی مدیری میں۔

یہ بات زیادہ درست نہیں کہ جدید سندھی صحافت کا دورسوویت یونین کے ٹوٹنے سے یا سندھ میں ایم آر ڈی تحریک کے بعدسے شروع ہوا جب پڑھے لکھے نوجوانوں اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے روزگار اور شوق و جنوں میں سندھی اخبارات کا رخ کیا۔ میں کہتا ہوں کہ جدید سندھی صحافت کے بانی شیخ عزیز ہی گردانے جائیں گے جسکی اصل شروعات سلیم قاضی کے خواب سے ہوتی ہے۔ کہ جب سندھ کی کچھ باغی اور بے چین روحوں کو سلیم اکبر قاضی نے اپنے اخبار کے دفتر کی ایک ہی چھت کے نیچےشیخ عزیز کی زیر ادارت جمع کرنے کی کوشش کی۔اس جگہ کے قریب جہاں گاڑی کھاتے کا تانگہ ا سٹینڈ تھا۔

سندھی اخبار میں اداریہ لکھنا شیخ عزیز نے باقاعدہ ایک ایونٹ بنایا۔ کاندھوںتک بڑے لہراتے بال، آستینیں چڑھی ہوئیں، قلم ہر وقت حرکت پذیر اور کوٹ کرسی پر لٹکا ہوا، ہر وقت ٹائی میں ملبوس۔ میں نے ایسا شیخ عزیز دیکھا جو ساقی ایڈیٹر لگتا تھا؟ اسلام ایڈیٹر۔ شیخ عزیز سے پہلی بار میں نے وکٹر ہیوگو کا نام اور کام سنا۔ اور تم جو گھر سے نکل کر باہر جاکر جو بھی دیکھتے ہو گھر واپس آکر وہ پوری دیانتداری اور معروضیت پسندی سے لکھو تو وہی خبر بنتی ہے۔ شیخ عزیز نے بتلایا۔

شیخ عزیز کی کتاب ’’سندھی عملی صحافت‘‘ جدید سندھی صحافت میں سندھی صحافیوں اور رپورٹروں کی کئی نسلوں کے لئے ایک رہنما کتاب بنی رہے گی۔ شیخ عزیز نے پاکستان میں سندھی، اردو اور انگریزی صحافیوں کی نسلیں تیار کیں۔ سندھ میں ایم آر ڈی کی مارشل لا مخالف تحریک کے دوران شیخ عزیز نے تمام سندھ کا دورہ کیا۔ا یم آرڈی کی تحریک کوانگریزی زبان میں قلمبند کیا جو کہ ابتک مسودے کی صورت اہم تاریخی دستاویز ہے۔

وہ بھٹو کے دنوں میں روس کے دورے پر گئے اور واپسی پر ایک سفرنامہ ’’لینن کے دیس میں‘‘ سندھی زبان میں لکھا ،شیخ عزیز کا تعلق سندھ کے دل حیدرآباد کے ٹنڈو آغا سے،جہاں مراد علی مرزا اور ممتاز مر زا جیسے صاحب طرز ادیب، ابن حیات پنوہر جیسے انقلابی ور انتھک مترجم لکھاری سیاسی کارکن، مرزا بڈھل جیسے مرثیہ نگار، آغا عبدالعلی شاہ جیسے صاحبان منبر، کئی ہنرمند و صناع گر خود شیخ عزیز کے بڑے بھائی شیخ اسماعیل جیسے ماہر لسانیات، اساتذہ اور موسیقی کے ماہرسے تھا۔ شیخ عزیز خود بھی برصغیر کی موسیقی پر بڑی دسترس رکھتے تھے۔ جہاں حسین شاہ بخاری جیسے یگانہ سیاسی کردار رہتے تھے، جہاں کے مرثیہ خوان ان دنوں ایک نوحہ پڑھتے تھے۔

قافلہ جاتا ہے۔

اور قافلہ جاتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین