• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پتہ نہیں فیض صاحب کے اس لافانی شعر …”یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر، وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں“ کو ہمارے ہاں دہرائے جانے کی ضرورت کب تک رہے گی؟ہماری رات تو شب ِ تار ہے ہی ، ہماری صبح کے چہرے پر بھی پرچھائیوں کے داغ ہیں۔ ناکامیوں کے کربناک سفر کے بعد ہم جس منزل پر پہنچتے ہیں وہ ایک اور ناکامی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
یہ کیسا صحرا ہے جہاں ہم دھول کو ابر باراں سمجھ کر خوشی کے نغمے گانے لگتے ہیں یہاں تک کے باد ِ سموم ادھ کھلے غنچہ امید کو جھلسا دیتی ہے؟ کیا وکلاء کی جدو جہد کا یہی منطقی انجام ہونا تھا ؟ کیا سرو کوپورے قد کاٹھ کے باوجود بے ثمر ہی رہناتھا؟ کیا ہمارے ہاں سرفرازی کا مطلب کج کلاہی کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا؟اُس وقت دل کس والہانہ پن سے سرشار تھے؟ بہت سے دلیروں نے آمریت کا سامنا کرتے ہوئے عدلیہ کی بحالی کے خون کا نذرانہ بھی پیش کیا ، پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں، تاہم آج اُن کے نام بھی ذہنوں سے محوہو چکے ہیں۔کیا اُنہوں نے جس مقصد کے لیے قربانی دی تھی وہ یہی تھا؟
درست ہے کہ مشرف کا دور اکتاہٹ سے بھر پور تھامگر یہ بات تسلیم کرنی ہو گی کہ اُن کی ابلاغیات کی پالیسی جدت کا تصورلئے ہوئے تھی اور اس نے ہمارے میڈیا کو زبردست ترقی سے ہمکنار کیا۔ اس کے بغیر ہمارے الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افراد کی آمدن اتنی زیادہ نہ ہوتی جو آج ہے اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہم سے نہ تو ناکامی ہضم ہوتی ہے اور نہ کامیابی۔ اُس وقت ہم تبدیلی چاہتے تھے مگر اس کے آثار کسی افق پر ہوید ا نہ تھے کیونکہ اُس وقت کی سیاسی قیادت نے یا تو آمریت کا ساتھ دینا بہتر سمجھا تھا یا پھر کچھ اہم رہنماؤں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیاتھا۔ طالبان کے خلاف جنگ بھی مغربی سرحدوں کے نزدیک ہورہی تھی اور دہشت گردی کے مہیب سائے ابھی اس سرزمین سے دور تھے اگرچہ غروب ہوتا ہوا سورج لہور نگ سرخی کا پتا دے رہا تھا۔ پھر آسمانی طاقتوں نے ہماری یاوری کی اور صدر مشرف ، جو اپنے ہر قدم کو دوسروں کیلئے سنگ ِ میل سمجھ رہے تھے، سے ایک فاش غلطی سرزد ہو گئی…وہ بڑے آرام سے جوڈیشل ریفرنس بھیج سکتے تھے مگر اُنہوں نے استعفیٰ طلب کیا، باقی تاریخ ہے۔ اُس ایک لمحے ، جس میں چیف صاحب کے سامنے کچھ سنجیدہ چہروں والے افسران بیٹھے تھے اور اُ ن کے درمیان جنرل کیانی ، جو اُس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، بھی موجود تھے مگر ذہین آدمی ہونے کے ناتے خاموش رہے ، نے وقت کے دھارے کو بدل دیا۔
پھر کیا تھا، انکار ایک لمحہ وجہ ِ افتخار بن گیااور ایک بار پھر آزاد اور جاندار میڈیا (جو بڑی حد تک مشرف دور کی تخلیق تھا اگرچہ آج کے میڈیا کے بہت سے بقراط اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں تامل سے کام لیتے ہیں) کاشکریہ کہ یہ معاملہ ڈرائنگ روم سے نکل کر روز روشن میں آ گیا۔ چیف صاحب کے انکار نے وکلاء میں مزاحمت کی روح پھونک دی۔ پھر نو آزاد میڈیا نے بھی اپنی تاب وتواں کو جانچنا تھا۔بہت جلد گمنام وکلا ء بھی میڈیا کے سامنے ابراہیم لنکن بن گئے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے وہ دور دیکھا… بار ایسوسی ایشنز میں بہت سے دوست وکلاء ،جیسا کہ منیر ملک، جسٹس (ر) طارق محمود، بیرسٹر اعتزاز احسن، علی احمد کرد، حامد خاں اور بہت سے دیگر، نے فضا کو گرما دیا اور پھر کراچی کی ایک خاتون وکیل بھی تھیں جنہوں نے اسلام آباد میں ہی سکونت اختیار کر لی تھی تاکہ آمریت کی گرتی ہوئی دیوار ڈھانے میں کسی دھکے کی ”کسر“ نہ رہ جائے۔ جب وہ تقریر کرنے کے لئے دایاں بازو بلند کرتیں یا مارچ میں شریک ہوتیں تو ایسا لگتا تھا کہ آئین اور قانون کی حکمرانی بہار کے خوشگوار جھونکے کی طرح ملک کے درو دیوار کو مہکانے والی ہے … مجھ جیسے افراد کو تو قانون عقل و منطق کی بجائے کیف آفرین جذبات کا مرقع معلوم ہوتا۔
تاہم کیف و نشاط کے یہ لمحات دیر پا ثابت نہ ہوئے اور بہت جلد حقائق کی تمازت نے گلستان کو خاکستر کرنا شرو ع کر دیا۔ تاریخی سچائی اپنی پوری سند کے ساتھ سامنے موجود تھی کہ ہر تحریک اور ہر انقلاب۔ چاہے وہ فرانس میں بپا ہو یا چین میں۔ خود سے وابستہ خوابوں کا خون کر دیتے ہیں، چنانچہ ہمارے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ اگرچہ وکلاء کی تحریک کو دنیا کے عظیم انقلابوں کی صف میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا مگر ہماری سروسامانی ایسا انقلاب ہی افورڈ کر سکتی ہے۔ اس کے بعد ہماری کتاب ِ زیست نے ایک اور صفحہ پلٹا تو علم ہوا کہ کہانی ایک انجام کے بعد دوسرے انجام سے دوچار ہونیوالی ہے اور قلم کار آج کا کام کل پر ٹالنے کا روادار نہ تھا۔
اب اُس تحریک کے بہادر رہنما کہاں ہیں؟اب جو جذبات ، جو آئین اور قانون کی حکمرانی کا سندیسہ دے رہے تھے، کس پتھر پر سر پٹخ رہے ہیں؟کیاہم اُ س وقت خواب میں تھے یا یہ خواب ہے؟کیا اس تاریک صبح کی امیدمیں رات کے عفریتوں سے نبرد آزما ہوئے تھے؟ یہ کیا تبدیلی ہے کہ ہم تذبذب کا شکار ہو گئے ہیں کہ ماضی کے کمزور رویے بہتر تھے یا حال کی خود پسندی !اس میں کوئی دو آرأ نہیں کہ حکومت نا اہل اور بدعنوان ہے مگر کیا ہر وقت اس پربلند ایوانوں سے چاند ماری کرنے سے معاملات سدھر جائیں گے؟اس فعالیت کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اداروں کے سربراہان اپنے کاموں پر توجہ دینے کی بجائے ہمہ وقت رپورٹس لکھنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنے کی فہرست طویل ہے اور ہر گزرتے ہوئے پل کے ساتھ اس کی طوالت میں اضافہ ہو رہا ہے… انتظامی معاملات پر جواب طلبی، گیس اوربجلی کی قیمتوں کا تعین،آبی ذخیروں کی تعمیر کا حکم (پرانے مسائل ابھی طے نہیں ہوتے کہ نئے چھیڑ لئے جاتے ہیں)اور گڑے مردے اکھاڑنے پر اتنے کمر بستہ کہ لگتا ہے کہ اس دیس میں مرحومین ہونا بھی سکون کے لئے کافی نہیں ہے۔ نہایت خندہ پیشانی سے ایسے ایسے احکامات پاس کر دئیے جاتے ہیں جن کی بجا آوری کیلئے کئی ڈویژن فوج کی ضرورت ہو تی ہے اور اگر ان پر واقعتاً عمل کرانا مقصود ہو تو پھر فوج کو اپنی دیگر تمام مصروفیات ترک کرتے ہوئے اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ اسی دوران میڈیا کے مردان ِ شمشیر زن حریفوں کو دعوت ِ مبازرت دیتے ہوئے میدان گرم رکھتے ہیں۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ پر مگر جہاں تک عدالت میں آنے والے عام سائل کا تعلق ہے تو اُس کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ہے۔ کیا وکلاء کی تحریک کا بنیادی مقصد عام آدمی کو انصاف پہنچانا نہیں تھا؟مگرہم سے یہ جھونپڑی تو بن نہ پائی ، ہم نے تاج محل تعمیر کرنے شروع کر دیے ۔ عام آدمی واقعی عام ہی ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ کسی طے شدہ منصوبے کا نتیجہ ہے یا اچھے ارادے منہ زور گھوڑے بن چکے ہیں؟یہ سوال بر محل ہے کیونکہ انتخابات قریب ہیں اور ہمارا جمہوری نظام، جس کا دامن پہلے ہی نااہلی اور بدعنوانی سے داغدار ہے، ابھی مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں ہے۔ اگرچہ ہم یہ نعرہ بھی سنتے رہتے ہیں کہ ماضی کو دفن کر دینا ہی بہتر ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ بہت سوں کا ماضی دفن ہونے سے صاف انکاری ہوتا ہے۔ چنانچہ جمہوریت کی کمزور بنیادیں بہت سا بوجھ اٹھاتے ہوئے ڈگمگاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اب صورت ِ حال یہ ہے فوجی افسران اورسیاست دانوں پر کڑی تنقید ہوتی ہے مگر ٹیکس چوری کرنے والے، دولت مندصنعت کاروں اور دھوکے بازوں سے اغماض برتا جاتا ہے اور پھر پاکستانی عوام اور میڈیا بھی کمزور اہداف پر چڑھائی کرتے ہیں۔ چنانچہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کراچی میں لسانی جماعتوں اور پشاور میں شدت پسندوں کے خلاف الفاظ کے استعمال میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا ․․․ ورنہ اس جسارت کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
عدلیہ کی موجودہ فعالیت کے حوالے سے بھی یہی احتیاط ملحوظ ِ رکھی جاتی ہے۔ میڈیا کے بہت سے دھڑے اس موضوع کو زیر ِ بحث نہیں لاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ موقع شناسی ہی شجاعت ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت زیادہ ضبط بھی صحت کے لئے اچھا نہیں ہوتا۔ عدلیہ کے حوالے سے محترمہ عاصمہ جہانگیر اور جسٹس طارق محمود کے بیانات قابل ِ تعریف ہیں۔ تاہم دیگر وکلاء نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ ایک حالیہ ٹاک شو میں ، میں دو بھاری بھرکم وکلاء(ان میں سے ایک واقعی جسمانی طور پر بھاری تھے)کے درمیان بیٹھا ہوا تھا۔ پروگرا م کے میزبان سلیم صافی نے پوری کوشش کی کہ وہ اس موضوع پر کھل کر اظہار کریں مگر اُنہوں نے نہایت چابکدستی سے براہ راست جواب دینے سے گریز کیا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتخابات سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوگا ؟ میرا خیال ہے کہ ان سے بہت بڑی توقعات نہیں رکھنی چاہئیں ۔ ہو سکتا ہے کہ کم و بیش یہی افراد واپس آجائیں۔ انقلابی تبدیلی کے دعوے کرنے والے شاید حقائق کی زمین پر اتر آئیں۔ فی الحال قومی معاملات کو سدھارنے والا کوئی جادوگر اس طرف نہیں آرہا ہے۔ تاہم دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم بہرحال ایک تبدیلی کی طرف بڑھ ر ہے ہیں۔ ہم بہرحال ایک ساکت و جامد قوم نہیں ہیں۔ اس دنیا میں سکوت کامطلب موت ہے، حرکت میں ہی زندگی ہے۔ مارشل لا اس لیے برے نہیں تھے کہ ہم پر جنرلوں کی حکومت قائم ہو گئی ، وہ اس لیے نقصان دہ تھے کہ اُس دوران تبدیلی کا راستہ مسدود ہو گیا اور کئی سالوں تک قوم ایک ہی حمام گرد باد کی اسیر رہی۔ اب کم از کم مستقبل کے تقاضے تو ہمیں آواز دے رہے ہیں اور ہم ان کی طرف صرف اسی صورت میں سفر کر سکیں گے جب موجود افراتفری ہمیں کچھ مہلت دے گی۔
تازہ ترین