• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان اگلے ماہ کے پہلے ہفتے میں چین کے سرکاری دورے پر جارہے ہیں اُن کا یہ تین روزہ دورہ نہ صرف غیرمعمولی طور پر اہم ہوگا بلکہ خود اُن کی حکومت کے لیے بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہو گا کیونکہ اُن کے دورے کا بنیادی مقصد پاکستان کی معیشت کو درپیش سنگین چیلنجز سے عہدہ برا ہونا ہے اور اسی حوالے سے وہ پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق بعض اہم اُمور بھی طے کریں گے۔ وزیراعظم چین کا دورہ ایک ایسے وقت میں کررہے ہیں جب خارجی سطح پر حالات پاکستان کے حق میں نظر نہیں آتے۔ بقول وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری کہ قرضے لینے کے لیےہم آئی۔ ایم۔ ایف (انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ) کے پاس ہرگز نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ ہماری یہ خواہش تھی کہ دوست ممالک ہماری مالی معاونت کریں اور ہمیں مشکل صورتحال سے نکالیں لیکن دوست ممالک نے اتنی کڑی شرائط سامنے رکھ دیں جنہیں پورا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں آئی۔ ایم۔ ایف کے پاس جانا پڑا۔ دوسری طرف امریکہ کا استدلال ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اس کی وجہ چینی قرضے ہیں اس لیے آئی۔ ایم۔ ایف سے حاصل کیے جانے والے قرضوں سے چینی قرضوں کی ادائیگی کسی صورت قابل قبول نہیں ہوگی۔ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اس صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور آئی۔ 

ایم۔ ایف کو پاکستان سے تمام معاملات میں میرٹ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر قطعی طور پر بے بنیاد اور مفروضے پر مبنی ہے کیونکہ چین سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کا دورانیہ تین سے چار سال بعد شروع ہوگا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین اور اس کے نتائج اُن کی حکومت کے استحکام کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ہے۔ ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کسی ایک امیدوار کا ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لینا اور پھر اُن نشستوں پر کامیابی کے بعد ایک نشست کے سوا باقی نشستوں سے دستبردار ہوکر وہاں ضمنی انتخابات کا انعقاد۔۔انتخابی عمل کا یہ انداز شاید ہی کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہوگا۔ شہر کے جس حصے میں ضمنی انتخاب کا انعقاد ہوتا ہے وہاں سیاسی اور سماجی زندگی چند دنوں کے لیے اتھل پتھل ہوکر رہ جاتی ہے اور انتظامی مشینری کا بھرپور استعمال اور انتخابی اخراجات کا معاملہ بھی عروج پر ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ جاری ہے اور شاید جاری رہے گا۔ 14 اکتوبر کو ملک میں قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلی کی 24 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو چار ، پاکستان تحریک انصاف کو چار، مسلم لیگ (ق) کو دو اور متحدہ مجلس عمل کو ایک نشست ملی ہے۔ بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی ان چار نشستوں میں اضافے سے تحریک انصاف کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا البتہ ایوان میں خواجہ سعد رفیق جیسے شعلہ بیاں مقرر کی جو کمی محسوس ہورہی تھی وہ ضرورپوری ہوجائے گی۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی جنہیں اُن کے اپنے حلقہ نیابت کے لوگوں نے مسترد کردیا تھا اہل لاہور نے میاں نواز شریف کے نام پر اُنہیں ووٹ دیئے اور وہ ایوان میں پہنچ گئے اُن کے ایوان میں آنے سے اب قومی اسمبلی میں تین سابق وزرائے اعظم موجودہ ایوان میں ہوں گے۔ 

جن میں راجہ پرویز اشرف، میاں محمد سومرو(نگران وزیراعظم) اور شاہد خاقان عباسی شامل ہیں ۔ چونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو مقدمات کا سامنا ہے اور شاید آنے والے دنوں میں اُنہیں اس حوالے سے مزید مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا ہو اور وہ مؤثر انداز سے ایوان میں اپنا پارلیمانی کردار تسلسل کے ساتھ ادا نہ کرسکیں اسی لیے یہ پہلو خارج ازامکان نہیں کہ شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں اپوزیشن لیڈر کا کردار تفویض کردیا جائےیاپھر مسلم لیگ (ن) کا پارلیمانی لیڈر بنادیا جائے۔کیونکہ شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی ہیں اور انہوں نے کم وبیش دس ماہ تک وزارت عظمٰی پر فائز رہنے کے دوران بھی میاں نواز شریف کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ضمنی انتخابات کی حالیہ تاریخ دیکھیں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ضمنی انتخابات میں اُسی جماعت کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جس کی وہاں حکومت ہو لیکن بالخصوص لاہور میں جہاں تحریک انصاف ہی کی حکومت ہے وہاں سے قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے کچھ اور اشارے بھی ملتے ہیں جو مسلم لیگی راہنماؤں کے دعوؤں اور الزامات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جیتی ہوئی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کی ناکامی سے جہاں تحریک انصاف کا مورال قدرے کمزور پڑا ہے وہیں مسلم لیگ (ن) کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے راہنما اور سابق وزیراعلیٰ کے ۔پی۔کے اکرم درانی کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی بھی صوبہ خیبرپختونخوا میں اس حوالے سے ایک اہم واقعہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان نے بنوں میں جلسہ عام کے دوران اکرم درانی کو للکارتے ہوئے چیلنج کیا تھاکہ اکرم درانی کو اس نشست سے شکست ہوگی، لیکن اُن کے صاحبزادے زاہد اکرم درانی کی کامیابی سے عمران خان یہ چیلنج ہارگئے ہیں۔ ضمنی انتخاب میں اہم نشستوں پر مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی سے یقیناً تحریک انصاف کی کم ہوتی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اور یہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی کا ہی اعتماد تھا کہ اگلے روز جب سابق وزیراعظم میں نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے اس مرتبہ وہاں موجود میڈیا کے نمائندوں سے خاصی دیر گفتگو کی اور کہا کہ ’’ضمنی انتخاب کے نتیجے سے اندازہ ہوگیا ہے کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا۔ عوام حالات دیکھ رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمیں دوبارہ لے آئیں گے‘‘۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہم نے راولپنڈی کی سیٹ بھی جیت لی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین