• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پہلی بار احساس ہوا کہ ارب کیا ہوتا ہے‘‘

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ پہلی بار احساس ہوا کہ ارب کیا ہوتا ہے، اربوں روپے درخت کے پتوں کی طرح اڑا دیئے گئے، اب اکٹھے کر رہے ہیں تو پتہ چل رہا ہے کہ ارب کیا ہوتا ہے۔

یہ ریمارکس چیف جسٹس آف پاکستان نے تھرکول پاور پراجیکٹ سے متعلق کیس کی سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران دیئے۔

نیب پراسیکیوٹر اصغر حیدر نے رپورٹ پیش کر دی، جبکہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند عدالت میں پیش ہوئے۔

سپریم کورٹ نے تھر کول پاور پراجیکٹ کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے، منصوبے میں گیسیفیکیشن سے بجلی پیدا کرنے کی تحقیقات نیب کے سپرد کر دیں۔

عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ کو منصوبے سے متعلق اشیاء قبضے میں لے کر 15 روز کے اندر رپورٹ پیش کرنے اور آڈیٹر جنرل پاکستان کو بھی منصوبے کا فرانزک آڈٹ کرنے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ جب ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے مفت بجلی کے دعوے کئے تو منصوبے سے رومانس ہو گیا، مگر 4 ارب کا نقصان کردیا گیا، یہ پاکستان اور سندھ کا نقصان ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ منصوبے پر بہت شور مچایا گیا کہ میں نے ایسا کام کر دیا ہے جو آج تک کسی سائنسدان نے نہیں کیا، 100 میگا واٹ منصوبے سے 3 میگاواٹ بجلی بھی نہیں آ رہی۔

انہوں نے کہا کہ پہلی بار احساس ہوا کہ بلین (ارب)کیا ہوتا ہے، اربوں روپے درخت کے پتوں کی طرح اڑا دیے گئے، اب اکٹھے کر رہے ہیں تو پتہ چل رہا ہے کہ بلین کیا ہوتا ہے، 3.8 بلین تو اس منصوبے پر لگ چکے ہیں، اس کا کون ذمہ دار ہے؟ کیا ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے یہ پیسے دینے ہیں؟

رمیش کمار نے عدالت کو بتایا کہ منصوبہ دو سال سے بند ہے، ملازمین کو تنخواہیں بھی نہیں دی گئیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس نے کہا کہ کیسےمنصوبے کے آغاز پر کہا گیا کہ بجلی انتہائی سستی ہوجائے گی۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ایک ماہر کے مطابق یہ منصوبہ قابل عمل نہیں۔

عدالتی معاون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ واضح نہیں ہے، 30 سال تک 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ماہرین کے مطابق اس منصوبے سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہوگی، ماحولیات پر بھی برا اثر پڑے گا، ایک کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ ناکام منصوبہ ہے مزید رقم نہیں دینی چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے، کیا اس کا پیسہ اس طرح سے ضائع کرنا ہے؟دیکھنا ہے کہ کہیں ان منصوبوں میں خوردبرد تو نہیں ہوئی۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ انجینئرز کے مطابق زیر زمین گیسیفیکیشن سے بجلی بنانا ممکن نہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ پراجیکٹ کے لے زمین سندھ نے دی اور سارا پیسہ وفاقی حکومت نے دیا۔

ثمر مبارک مند نے کہا کہ اس منصوبے سے کوئی ماحولیاتی آلودگی نہیں ہوئی، وکیل اس منصوبے کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پاکستان غریب ملک ہے، کیا اس کا پیسہ ایسےضائع کرنا ہے؟ تھر کول گیسیفیکیشن سے بجلی بنانے کے دو طریقے ہیں، ایک کوئلہ نکال کر بجلی پیدا کی جاتی ہے، دوسرا وہ جو بندر گاہوں پر پلانٹ لگائے گئے ہیں، دیکھنا ہے کہ کہیں ان منصوبوں میں خوردبرد تو نہیں ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا مجھے پتا تھا آپ یہی کہیں گے، عدالت نے منصوبے کی تحقیقات نیب کے سپرد کرتے ہوئے 15 روز میں رپورٹ طلب کرلی۔

تازہ ترین