• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت و ٹیکسٹائل نے ہدایت کی ہے کہ ملکی اجناس کے فروغ اور مقامی اداروں کے مفادات کے تحفظ کیلئے زرعی اجناس کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے اگرچہ یہ بات کسی منطق کے تحت کہی گئی ہے اورمقامی کاشت کاروںکی محنت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تاہم ایسے فیصلے مستقل بنیادوں پر نہیں کئے جا سکتے جن کا تعلق21کروڑ عوام کی خوراک سے ہو بعض موسمی یا ناگہانی حالات میں ملک کے اندر اجناس کی کمی کا پیدا ہو جانا غیر ممکن نہیں اس کے علاوہ ماضی میں بارہا یہ رجحان بھی دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ جب کسی وجہ سے درآمدات معطل یا بند ہو جاتی ہیں ملک کے اندر ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ پاکستان اس وقت تمام اجناس، پھل، سبزی اپنے ملک میں بھی پیدا کر رہا ہے اور حسب ضرورت ہمسایہ ممالک ایران، افغا نستان، چین اور بھارت سے بھی درآمد کرتا ہے تاہم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے متذکرہ اجلاس میں ٹھوس بات کہی گئی ہے کہ پاسکو دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان کے کاشتکاروں سے پھل سبزی نہیں خریدتا اور جب بلوچستان میں فصلیں تیار ہو جاتی ہیں تو ہمسایہ ملکوں کی سرحدیں کھول دیتا ہے اور باہر سے مال آنا شروع ہو جاتا ہے جس سے ملک کے اندر زرعی اجناس کی رسد طلب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہ ایک انتہائی توجہ طلب مسئلہ ہے اور اس کا ادراک ہوناچاہئے تاہم یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ پاکستان21کروڑ سے زائد کی آبادی والا ملک ہے ذخیرہ اندوزی کے باعث آئے دن پھل سبزی کی مصنوعی قیمتیں گرانی پیدا کرتی ہیں اور عوام کو پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا متوازن میکانزم تیار کیا جائے جس سے ملک کے اندر طلب اور رسد کا توازن قائم رکھا جا سکے اور اس کے تحت پہلے ملکی پیداوار اور پھر حالات کے مطابق درآمدات پر توجہ دی جائے۔ مزید برآں بلوچستان اور جہاں بھی ضرورت پڑے ، کولڈ سٹوریج اور گوداموں کو یقینی بنایا جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین