• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک دلچسپ بحث ہے اور غور و فکر کی متقاضی ہے، ہمیں کالج کے زمانے سے کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ مغربی تصور جمہوریت کے مطابق قانون اندھا ہوتا ہے۔ مطلب قانون کیوں کہ دیکھ نہیں سکتا اس لئے ہر شہری سے ایک جیسا سلوک کرتا ہے۔ اس کے سامنے محل آئے یا جھونپڑی، صحتمند انسان آئے یا بیماریوں کا مارا مریض، امیر آئے یا غریب، لذیذ کھانوں سے سیر رئیس آئے یا کئی روز سے بھوکا انسان، وہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتا ہے اور انسانوں میں تمیز یا امتیاز نہیں برتتا۔ رحم کے جذبے، احساس یا خیال کو دیس نکالا دینے کے لئے اندھے قانون کی اصطلاح وضع کی گئی ہے اور سچ یہ ہے کہ ہم مغربی جمہوری ممالک میں اکثر ایسے ہی مناظر دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک عام پولیس افسر تفتیش کرنے وزیر اعظم ہائوس پہنچ جاتا ہے اور اگر وزیر اعظم کی بیگم اور ملک کی خاتون اول نے قومی خزانے کا زیاں کیا ہو تو اسے بھی تفتیش یعنی سوالات و جوابات کے لئے پولیس اپنے سرکاری مقام پر بلالیتی ہے جیسا کہ آج کل اسرائیل میں ہورہا ہے لیکن یہ اندھا قانون اس وقت تک کسی انسان کو ہتھ کڑی نہیں لگاتا جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے اور عدالتی حکم جاری نہ کردیا جائے کیونکہ ہتھ کڑی انسانیت کی تذلیل ہے اور یہ تذلیل دو صورتوں میں حق بجانب ہوتی ہے، اول جب جرم ثابت ہوجائے، دوم ملزم کے فرار، بھاگنے اور ساتھیوں کے ہاتھوں اغوا ہونے کا اندیشہ ہو جیسے عام طور پر قتل، ڈاکے جیسے سنگین جرائم میں ہوتا ہے۔ اسلامی فلاحی ریاست کے انداز یا اپروچ میں تھوڑا سا فرق ہے.....اور یہ فرق تھیوری اور پریکٹس کا فرق ہے، تھیوری کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور قانون کے سامنے غریب و امیر سب یکساں ہوتے ہیں۔ مکہ معظمہ کا وہ مشہور کیس جو ایک بااثر قبیلے کی خاتون فاطمہ کے حوالے سے کتابوں میں درج ہے کہ اس نے چوری کی تو نبی کریمﷺ سے بااثر سرداروں نے سزا کی معافی کی سفارش کی۔ حضور اکرمؐ کا فرمان سمندر کو کوزے میں بند کرتے ہوئے انسانی تہذیب کے نچوڑ کی عکاسی کرتا ہے۔ فرمایا تم سے پہلے قومیں اس لئے ہلاک ہوئیں کہ وہ جرم کے ارتکاب پر بااثر کو چھوڑ دیتی تھیں اور غریب کو سزا دیتی تھیں۔ خدا کی قسم اگر فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرے تو اسے سزا دی جائے گی۔ مطلب یہ کہ قانون سب کے لئے برابر ہے اور سزا کے حوالے سے امتیاز کرنے والی قوم ہلاک ہوجاتی ہے۔

یہ تو ہے اسلامی فلاحی ریاست کا ایک طے شدہ قانون اور اصول لیکن مغربی جمہوریت کے برعکس اس میں ایک معمولی سا فرق ہے جو معمولی بھی نہیں، بھلا وہ فرق کیا ہے؟ وہ یہ کہ بےشک قانون اندھا ہے لیکن انسان اندھا نہیں، قانون اندھا ہے لیکن قانون کا نفاذ کرنے والا بینا ہے۔ یہاں سے اندھے قانون میں انسانی پہلو داخل ہوتا ہے جس کا مظاہرہ ہم نے حضرت عمرؓ کے سنہری دور حکومت میں دیکھا۔ اسلامی تاریخ میں حضر ت عمرؓ کی گورننس ایک مثال بلکہ روشنی کے مینار کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت عمرؓ کا بےرحم احتساب، قانون کی حکمرانی، سادگی و بچت، انسانی برابری اور مملکت کے شہریوں کی فلاح و بہبود انسانی تاریخ کے مثالی کارنامے ہیں جنہیں ہم رشک سے نم آنکھوں کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ اندھے قانون کے ڈھانچے میں انسانی پہلو کے اضافے کی بہترین مثال یہ تھی کہ حضرت عمرؓ نے قحط کے دوران چوری کی سزا معطل کردی تھی، اگر کوئی انسان اسلامی فلاحی ریاست میں بھوکا سوتا ہے تو یہ ریاست کی ناکامی ہے اوراگر وہ زندگی بچانے کے لئے چوری کرتا ہے تو اسے ریاست کی ناکامی کی سزا کیوں دی جائے؟

بات قدرے لمبی ہوگئی جبکہ کالم بیچارا حدود و قیود کا اسیر ہوتا ہے۔ ان دنوں کچھ اس طرح کے واقعات دیکھنے کو ملے کہ دل تڑپ اٹھا اور ذہن پر صدمات کے بادل چھا گئے۔ پہلا صدمہ سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اکرم چوہدری کو ہتھ کڑی میں دیکھنا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی علمی خدمات، شرافت، ایمانداری کتاب کا موضوع ہے۔ انہوں نے جس طرح سرگودھا یونیورسٹی کے تعلیمی معیار ا ور تحقیقی سرگرمیوں کو چار چاند لگائے اور حکومتی خزانے کا بوجھ گھٹانے کے لئے مالی منصوبہ بندی کی وہ نہ صرف متاثر کن ہے بلکہ دوسروں کے لئے مثال بھی۔ یونیورسٹیاں آزاد ادارے ہوتی ہیں جن کے فیصلے سنڈیکیٹ اور سینیٹ کرتی ہے۔ انہوں نے سارے کام قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مجاز اتھارٹی کی منظوری سے کئے۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال ڈاکٹر کامران مجاہد کی تھی۔ ان کے ساتھ دوسرے ماہرین تعلیم، نامور شخصیات اور معاشرے میں علم و فضل کی علامتوں کو ہتھ کڑیاں پہنانا افسوسناک حرکت تھی۔ پہلے اچھی طرح الزامات کی چھان بین کرلو، یونیورسٹی ایکٹ کی روشنی میں جرم ثابت ہونے دو پھر عدالت اگر سزا دے تو قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا لیکن ان مراحل سے قبل ان سے سنگین مجرموں جیسا سلوک اور میڈیا پر تذلیل معاشرے کو جہالت میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ نیب نے اپنا سارا وقار کھو دیا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال بھی یقیناً مغموم ہوں گے جبکہ معاشرہ شرمسار ہے۔

اسلامی فلاحی ریاست اندھے قانون کے ڈھانچے میں ایک انسانی آنکھ کا اضافہ کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت غریبوں کے لئے غربت سے رہائی کا پیغام لائی تھی۔ بے شک تجاوزات کے خلاف مہم ایک جہاد ہے کیونکہ گائوں، قصبوں، محلوں، سڑکوں سے لے کر شہروں تک تجاوزات قانون کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ قبضہ مافیاز، بااثر و طاقتور حضرات اور ان کی دیکھا دیکھی بہت سے دوسرے حضرات نے سرکاری زمینوں، بیوائوں اور یتیموں کی جائیدادوں پر قبضے کر رکھے ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ ساٹھ ستر برس سے جاری ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ کارنامہ بہرحال قابل ستائش ہے لیکن اندھے قانون میں انسانی آنکھ کا اضافہ ضروری ہے۔ قحط میں چوری برداشت کی جاسکتی ہے۔ خدارا غریبوں کے کچے کوٹھے، غریبوں کی ریڑھیاں اور خوانچے اس وقت تک مسمار نہ کرو جب تک اسلامی فلاحی ریاست انہیں چھت اور روزگار مہیا کرکے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرلیتی۔ تجاوزات کے خلاف جہاد ضروری ہے لیکن خدارا اس میں انسانی پہلو کا اضافہ کرلو، غریبوں کو سہولتیں اور آسانیاں نہیں دے سکتے تو ان کی محرومیوں میں اضافہ نہ کرو کہ غریب کی آہ فلک تک جاتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین