• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ ن کے دو سینیٹر دو نمبری دکھانے پر سینیٹ سے فارغ ہوگئے ہیں ۔ خیر سے یہ فراغت سپریم کورٹ آف پاکستان سے ہوئی ہے۔ ایک اورمسلم لیگی سینیٹر نے دونمبری دکھا رکھی ہے۔ دیکھئے اس کا فیصلہ کب ہوتا ہے۔ اس دونمبری پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ ان لوگوںکو دھوکہ کرتے وقت کوئی شرم نہیںآئی۔ ان کے ضمیر نے انہیں ایک بار بھی نہ ٹوکا کہ تم دونمبری کر رہے ہو ، ایسا کرنا مناسب نہیں۔ ان لوگو ں نے ایک بار بھی نہ سوچا کہ ہم لوگ پوری پاکستانی قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ جھوٹ بول رہے ہیں مگر ان کو شاید یہ خیال اس لئے نہ آسکا کہ خود ان کی قیادت ایک زمانے میں پورے وثوق کے ساتھ جھوٹ بولتی رہی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب شریف فیملی سعودی عرب گئی تو کسی بھی قسم کے معاہدے سے انکاری تھی پھر سعودی شہزادے کو پاکستان آکر یہ معاہدہ لہرانا پڑا۔ جب قیادت کا یہ حال ہو کہ وہ اپنی قوم سے سالہا سال جھوٹ بولے تو پھر کارکنوں کا کیا قصور ، انہیں تو اپنی قیادت کے نقش قدم پر چلنا ہوتا ہے۔ جب قیادت کہے کہ فلیٹس ہمارے نہیںاور پھر اس نہیں، نہیںمیں مان جائے کہ ہاں ہمارے ہی ہیں یہ فلیٹس۔ جب قیادت کہے کہ میری باہر تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں اور پھر خود مان لیا جائے کہ ہاں ہے تو پھر ایسے میں بیچارے کارکن کیا کریں۔ پتا نہیں جھوٹ اوردھوکے بازی پر شاعروں نے کیا کیا مشق سخن کی ہے مگر مجھے تو مسلم لیگی کارکنوں کی حالت زار پر رخشندہ نوید کی ایک پنجابی نظم کی دو تین لائنیں یاد آرہی ہیں کہ؎

کناں ٹراں سمبھال کے آخر

اچی نیویں تھاں تے پیریں

کدی تے موچ وی آسکدی اے

ترجمہ:(میں کتنا سنبھل سنبھل کر چلوںآخر جگہ کی ناہمواری کے باعث کبھی تو پائوں میں موچ آسکتی ہے)

دوسرا سوال الیکشن کمیشن ہے۔ الیکشن کمیشن ان سینیٹرز کو فارغ کیوں نہ کرسکا۔

حالیہ ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کو لگنے والے دھچکے پر ویسے تو میں پچھلے کالم میں لکھ چکا ہوں۔ اس کی وجوہات بھی بیان کرچکا ہوں مگر بڑی وجہ یہی ہے کہ جہاںجہاں دونمبری ہوئی وہاں سے پی ٹی آئی ہار گئی۔ حلقہ این اے 131کی ہار پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوںکے لئے بھی پریشان کن ہے۔اس حلقے سے کم و بیش گیارہ خواتین کو مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی نے اسمبلیوں تک پہنچایا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی نے وہی غلطی کی جو ایک زمانے میں چوہدری پرویز الٰہی نے کی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی نے بھی لاہوری خواتین کو زیادہ اوربڑی تعداد میں اسمبلیوںمیں پہنچا دیا تھا مگر پھر نتیجہ اس کے مطابق نہ آسکا۔ پی ٹی آئی پنجاب کے چار زونز ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہر ریجن سے خواتین کو مخصوص نشستوںپر اسمبلیوں میں پہنچایا جاتا مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ سینٹرل ریجن کی خواتین کو بڑی تعداد میں اسمبلیوں میں پہنچا دیا گیا، باقی ریجن نظرانداز کردیئے گئے حالانکہ سب سے برا نتیجہ سینٹرل ریجن سے آیا۔ ملتان کی قربان فاطمہ اور اوکاڑہ کی شازیہ احمد سمیت کئی محنتی کارکن خواتین ’’لاہوری تعصب‘‘ کا شکار ہوئیں۔ پی ٹی آئی کو اپنے نظرانداز کئے گئے کارکنوں کاخیال کرنا چاہئے۔ پارٹیاںاپنے نظریاتی کارکنوںکو کھونا پسند نہیںکرتیں۔

نظریاتی کارکنوں سے یاد آ رہا ہے کہ سیاست میں دولت کے کھیل نے نظریاتی کارکنوں کو پیچھے کیا ہے۔ نذرکیانی، جہانگیر بدر، فضل حسین راہی اور مختار اعوان کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ اب نظریات پر دولت غالب آگئی ہے۔ پیپلزپارٹی کارکنوں کو ایک زمانے میں اہمیت دیتی تھی۔ مسلم لیگ نے کبھی کارکنوں کو اہمیت دینا گوارا ہی نہیںکیا۔ پھر ایک جماعت تحریک ِ انصاف ایسی سامنے آئی جس نے نظریاتی کارکنوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس نے 2013میںاپنے بہت سے کارکن اسمبلیوں میں پہنچا دیئے۔ 2018میں بھی کارکنوںکی اچھی خاصی تعداد اسمبلیوں کا حصہ بن گئی۔ اسی لئے تو مخالفین پی ٹی آئی کے وزرا کا مذاق اڑاتے ہیں کہ نئے ہیں جی۔ بالکل ہی نئے ہیں جی۔ کبھی ان کی ناتجربہ کاری کا مذاق اڑایا جاتا ہے، حوصلہ رکھئے پی ٹی آئی میں بہت سے نظریاتی کارکن بڑے باہمت ہیں۔ ان میں سے ایک علی نواز اعوان ہے۔ علی اعوان حالیہ ضمنی انتخابات میں اسلام آباد سے ایم این منتخب ہوئے ہیں۔ ویسے مذاق اڑانے والے پہلے فواد چوہدری کی اس بات کا جواب تو دے دیںکہ ’’پاکستانیو! تمہیںان تجربہ کار لوگوں ہی نے تولوٹاہے۔ یہی تجربہ کار لٹیرے ہیں۔ 94ارب ڈالر کہاں گیا، اتنا قرضہ کون کھا گیا..... ‘‘ آپس کی بات ہے اب ن لیگ کے ساتھ ساتھ خوشید شاہ کی آنکھوںمیں بھی فواد چوہدری کھٹکنے لگا ہے۔ لگتا ہے شاہ صاحب کی بھی کوئی انکوائری کھلی ہوئی ہے۔

بات ہو رہی تھی ایک نظریاتی کارکن علی اعوان کی۔ علی اعوان نے ہزاروں ووٹوں کی لیڈ سے اپنے مخالف کو مات دی ہے۔ مسلم لیگ ن کے حلقوں میں راجہ وقار ممتاز کا نام پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ اس لئے یہ نام اسلام آباد کے شہریوں کے لئے بھی نیا تھا۔ دوسری طرف علی نواز اعوان نے بھرپور انتخابی مہم چلا رکھی تھی۔ پی ٹی آئی کے تمام جوشیلے کارکن اس مہم میں شریک تھے۔ خاص طور پر چوہدری رضوان نے دن رات ایک کر رکھا تھا۔ علی اعوان کوئی دولت مندآدمی نہیں ہے مگر تحریک ِ انصاف کا پکا نظریاتی کارکن ہے۔ یہ ہمارے ساتھ عدلیہ بحالی تحریک میںبھی تھا جب ایک آمر کی حکمرانی تھی۔ پیپلزپارٹی، تحریک ِ انصاف، مسلم لیگ ن سمیت کئی دوسری پارٹیوں اور صحافتی تنظیموں نے بھی عدلیہ بحالی تحریک میں حصہ لیا۔ اسی تحریک میں جب پولیس چوہدری اعتزاز احسن پرحملہ آور ہوئی تو میں اور زمرد خان آگے ہوگئے۔ میرا سر پھٹ گیا اور زمرد خان کا بازو ٹوٹ گیا۔ یہ وہی تحریک ہے جس کا سارا کریڈٹ ن لیگ لینے کی کوشش کرتی ہے شاید انہیں یاد نہیں رہتا کہ اس تحریک میں ڈاکٹر اسرار شاہ ٹانگوں سے محروم ہو گیا تھا، نرگس فیض ملک شدید ترین زخمی ہوئی تھیں۔ پیپلزپارٹی کے کئی کارکنوں کی جانیں گئی تھیں۔ اسلام آباد سے منتخب ہونے والا نیا ایم این اے بھی اس تحریک کا حصہ تھا۔ اسی لئے جب اسلام آباد میںبلدیاتی الیکشن ہوئے تو جس یو سی چیئرمین نے سب سے زیادہ ووٹ لئے اس کا نام علی اعوان تھا۔ علی اعوان اسلام آباد کا میئر بھی بن سکتا تھا مگر اس مرحلے پر عمران خان نے قبضہ مافیا سے ہاتھ ملانا پسند نہ کیا پھر قبضہ مافیا کے لوگوں نے ن لیگ کو سپورٹ کر دیا۔ مجھے ایسے لمحات پر حیرت ہوتی ہے اور ایسے لمحات پر اسلم گورداسپوری کا شعر یاد آجاتا ہے؎

زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئے

عہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کرلیں

تازہ ترین