• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2 دسمبر کو ‘ملی یکجہتی کونسل سے متعلق میرے کالم کے جواب میں جماعت اسلامی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات محمد فاروق چوہان کا وہ کالم شائع ہوا جس میں انہوں نے مجھے اور پاکستانی میڈیا کو سیکولر کہہ کر امریکی لابی سے جوڑنے کی کوشش کی تھی۔ اس روز مجھے ان کی کال آئی۔اپنے تعارف کے بعد انہوں نے میری تعریفیں شروع کردیں ۔وہ اسلام ‘ پاکستان اور جماعت اسلامی کے لئے میری مبینہ خدمات پر مجھے خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ جب میری یہ بلاجواز تعریف و تحسین حد سے بڑھ گئی تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ ان سے عرض کیا کہ آپ ادھرتو میری تعریفیں کررہے ہیں لیکن آج ہی کے اخبار میں مجھے سیکولر کہہ کر امریکی لابی سے جوڑدیا ہے ۔ اگر واقعی آپ کے نزدیک میں ویساہی ہوں تو پھر میری تعریفوں کی کیا ضرورت ہے؟ ۔ مولانا مودودی کا پیروکار اور قاضی حسین احمد کا ترجمان ہونے کے ناتے آپ میں اتنی اخلاقی جرأت ہونی چاہئے کہ میرے منہ پر بھی مجھے وہی کچھ کہہ دیں جو آپ کے دل میں ہے ۔ میرے اس جواب کے جواب میں فاروق چوہان صاحب یکسر مکر گئے اور کہنے لگے کہ انہوں نے تو میرے لئے سیکولرکا لفظ لکھا ہے اور نہ مجھے امریکی لابی سے جوڑا ہے ۔ میں نے انہیں ان کے کالم میں لکھے گئے الفاظ کی طرف متوجہ کیا تو کہنے لگے کہ سیکولر اور امریکی لابی کا بندہ میں نے آپ کو نہیں بلکہ آپ کے ادارے کے ایک اور اینکر اور کالم نگار کو کہا ہے ۔ انہوں نے ہمارے ایک سینئر اینکر اور کالم نگار دوست (جو ان دنوں زیرعتاب بھی ہیں) کا نام لیا اور کہا کہ وہ امریکی لابی میں شامل ہیں۔ ان کے اس جواب پر میرا پارہ چڑھ گیااور یقیناً میرا لہجہ بھی تلخ ہوا ۔ ان سے کہا کہ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ وہ اینکر سیکولر یا پھر امریکی لابی کا بندہ ہے ۔ ان سے کہا کہ میرا اس سے کبھی اتفاق نہیں رہا ۔
ماضی میں انہوں نے ہر موقع پر میری مخالفت کی ہے اور میں ان کا شدید ناقد ہوں لیکن نہ تو وہ سیکولرہیں اور نہ امریکی لابی کا بندہ ہے ۔ ان سے کہا کہ تم جیسے لوگوں کے ان بے بنیاد فتووں کی وجہ سے کبھی ڈاکٹر فاروق خان جیسے انسان دوست لوگ نشانہ بنتے ہیں اور کبھی مولانا حسن جان جیسے علمائے کرام۔اگر خاکم بدہن اس اینکر کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار بھی روزقیامت آپ جیسے لوگ ہوں گے ۔ اسی پس منظر میں گزشتہ کالم میں جماعت اسلامی کے تذکرے کے وقت فاروق چوہان صاحب کا ذکر ہوا اور اسی تناظر میں میرا تبصرہ شاید کچھ زیادہ تلخ بھی تھا لیکن اب اس کے جواب میں فاروق چوہان صاحب نے ایک بار پھر جماعت اسلامی کی ترجمانی کی آڑ لے کر ایک کالم دو قسطوں میں تحریر کیاہے جس میں ایک بار پھر انہوں نے مجھے اور پوری پاکستانی میڈیا کو امریکی اور ہندوستانی لابی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے ۔ حالانکہ پاکستانی پرنٹ میڈیا کے سرخیل اسی جنگ اخبارمیں قاضی حسین احمد صاحب کا کالم بھی شائع ہوتا ہے اور خود فاروق چوہان صاحب کے کالم بھی بڑے اہتمام کے ساتھ شائع ہوئے۔ اسی طرح امریکی اور ہندوستانی لابی کے لئے کام کرنے والے الیکٹرانک میڈیا کے سرخیل جیو ٹی وی نے گزشتہ ہفتہ قاضی حسین احمد کا انٹرویو نشر کیا اور جماعت اسلامی کے اصلی اور منتخب امیر سید منور حسن میرے پروگرام میں تشریف لائے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ میڈیا امریکی اور ہندوستانی لابی کے لئے کام کررہا ہے تو پھر اس میں ان لوگوں کی یہ آؤبھگت کیوں ہورہی ہے اور پھر یہ لوگ خود اس کا حصہ کیوں بن رہے ہیں ؟فاروق چوہان صاحب نے یہ تاثر دیا ہے کہ میں قاضی حسین احمد کے معاملے میں کسی ذاتی عناد کا شکار ہوں تو اس حوالے سے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ قاضی صاحب کے ساتھ میرے خاندانی اور غمی شادی کے تعلقات ہیں۔ آصف لقمان قاضی میرے بھائیوں جیسے ہیں اور اللہ گواہ ہے کہ میں دل سے ان کی عزت کرتا ہوں اور ان کی درازی عمر کے لئے دعا گو رہتا ہوں۔ ۔ خود قاضی صاحب نے بھی ہر موقع پر مجھے بے پناہ شفقت اور محبت سے نوازا ۔ انہوں نے مجھے اپنے ادارہ فکر وعمل کے ہر پروگرام میں بحیثیت مقرر مدعو کیا اور میں ہر پروگرام میں شریک رہا۔ اسی طرح ملی یکجہتی کونسل کے تاسیسی اجلاس میں بھی ان کی خصوصی دعوت پر شریک ہوا تھا۔ جس دن ان پر مہمند ایجنسی میں خودکش حملہ ہوا ‘ ان کی خیریت دریافت کرنے کے لئے فون کرنے والے ابتدائی افراد میں یہ عاجز بھی شامل تھا۔ اگلے دن جب وہ اسلام آباد آئے تو میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ نصف درجن صحافی گواہ ہیں کہ اس موقع پر بھی میں نے طالبان اور دینی جماعتوں کے اتحاد کے بارے میں قاضی صاحب کے موقف کے بارے میں وہ اعتراضات کئے جو کالموں میں کرتا رہا ۔ ہم جیسوں کو اعتراض اس بات پر نہیں کہ قاضی حسین احمد امریکہ اور بھارت پر تنقید کیوں کررہے ہیں بلکہ اعتراض اس پر ہے کہ اگر مصلحتاً پورا سچ نہیں بول سکتے تو عسکریت پسندی کے بارے میں قوم اور خود جماعت اسلامی کے کارکنوں کو کنفیوز بھی نہ کریں۔ وہ فرماتے ہیں جو خودکش حملے ہورہے وہ بلیک واٹر اور سی آئی اے والے کروارہے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسا بلیک واٹر ہے اور کیسی سی آئی اے ہے جس نے پرویز مشرف ‘ آفتاب شیرپاؤ‘ اسفندیارولی خان ‘امیر مقام اور اسی نوع کے دیگر لوگوں کو تو پہلے نشانہ بنایا لیکن مولانا فضل الرحمان اور قاضی حسین احمد پر ان کی نظر بہت بعد میں پڑی؟۔ یہ کیسے امریکی اور بھارتی ایجنٹ ہیں کہ جو جی ایچ کیو‘ مہران بیس اور کامرہ بیس کے اندر تو گھس گئے لیکن منصورہ اور عبدالخیل میں مولانا کا مدرسہ ان کی دسترس سے باہر ہیں ؟۔ آخر کب تک ہم حقائق سے نظریں چراتے رہیں گے ۔ پاکستانی فوج ‘ پولیس اور بعض سیاسی جماعتوں کو کسی اور نے نہیں بلکہ تحریک طالبان پاکستان نے چیلنج کیا ہے ۔ اس کے امیرحکیم اللہ محسود ہیں ۔ ان کی وہ ویڈیو میں نے خود جماعت اسلامی کے ذمہ داروں کو دی تھی جس میں انہوں نے قاضی حسین احمد پر الزام لگایا تھا کہ وہ سیکولر سوچ کے حامل ہیں اور جہاد فروشی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ اس ویڈیو میں میرا بھی ذکر ہے لیکن حکیم اللہ محسود نے میرے بارے میں نہیں بلکہ قاضی حسین احمد صاحب کے بارے میں کہا ہے کہ جب لال مسجد پر گولیاں برس رہی تھیں تو وہ لندن چلے گئے ۔ حکیم اللہ محسود کو تحریک طالبان کے وابستگان اپنا امیر مانتے ہیں اور خود وہ ملامحمد عمر مجاہد کو اپنا امیرالمومنین مانتے ہیں ۔
پچھلے سالوں کے دوران امریکہ کو کسی ایک کارروائی میں سب سے شدید دھچکا اس وقت لگا کہ جب خوست میں ابودجانہ نامی ایک عرب مجاہد نے سی آئی اے کے نصف درجن سے زائد افسروں کو ایک خودکش حملے میں اڑا دیا۔ اس کارروائی کے لئے ابودجانہ کو حکیم اللہ محسود نے روانہ کیا تھا اور کارروائی کے لئے جانے سے قبل ابودجانہ نے حکیم اللہ محسود کے ساتھ ویڈیو تیار کی تھی ۔ اب اگر حکیم اللہ محسود بلیک واٹر یا سی آئی اے کے لئے کام کررہے ہیں تو پھر انہوں نے سی آئی اے کے خلاف ایسی بھیانک کارروائی کیوں کی جس کے سوگ میں سی آئی اے ہیڈکوارٹر میں پچھلے بیس سالوں کے دوران پہلی مرتبہ پرچم سرنگوں ہوگیا۔
شاید انہوں نے فاروق چوہان کو نہ بتایا ہو لیکن محترم قاضی صاحب کو اچھی طرح علم ہے کہ تحریک طالبان باجوڑ ایجنسی کے امیر مولوی فقیر محمد سوویت یونین کے خلاف جہاد میں بھی سرگرم عمل رہے اور وہ باجوڑ ایجنسی میں اپنا مدرسہ چلاتے رہے ۔ تحریک طالبان کے مہمند ایجنسی کے امیر عبدالولی عرف عمر خالد اس تحریک کا حصہ بننے سے قبل ایک معروف جہادی تنظیم کے مقامی کمانڈر تھے ۔ اسی طرح بیت اللہ محسود اور نیک محمد افغان طالبان کے ساتھ افغانستان میں مصروف عمل رہے تھے ۔ تحریک طالبان جنوبی وزیرستان کے امیر مفتی ولی الرحمان عالم دین بھی ہیں اور پوری زندگی جہادی سرگرمیوں میں گزاری ہے ۔تحریک طالبان پنجاب کے امیر عصمت اللہ معاویہ نے ساری جوانی جہادی سرگرمیوں میں گزاری اور قبل ازیں وہ کشمیر کے محاذ پر بھی لڑتے رہے ۔ اب یہاں سی آئی اے کہاں سے آگیا اور بلیک واٹر سے ان لوگوں کا کیا تعلق ؟۔ یہ لوگ تو پاکستانی فورسز سے اس بنیاد پر لڑرہے ہیں کہ ان کے نزدیک پاکستانی حکومت اور فوج نے سی آئی اے اور بلیک واٹر سے اتحاد کررکھا ہے ۔جب تندور گرم ہوجاتا ہے تو پھر ہر کوئی اس میں آکر اپنی روٹیاں لگاتا رہتا ہے ۔افغانستان اور پاکستان میں کم وبیش ہر ملک کی انٹیلی جنس سرگرم عمل ہے ۔ پاکستان اور امریکہ ‘ ہندوستان اور افغانستان کی ایجنسیاں اسی خطے میں ایک دوسرے سے کھیل رہی ہیں ۔ یقیناً امریکہ‘ ہندوستان اور افغانستان کی انٹیلی جنس کی ہمدردیاں ان لوگوں کے ساتھ ہوں گی جو پاکستانی فورسز سے لڑرہے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ مذکورہ تحریک طالبان یا القاعدہ کا کوئی اہم لیڈر دانستہ اور شعوری طور پر امریکہ یا ہندوستان کے لئے کام کرے گا۔ ان لوگوں کی صفوں میں تو احسن عزیز مرحوم جیسے لوگ بھی شامل ہیں جو کچھ عرصہ قبل وزیرستان میں لڑتے ہوئے زندگی ہار گئے اور ان کی غائبانہ نماز جنازہ کی امامت خود محترم قاضی صاحب نے کی۔ اب کیا یہ لوگ بلیک واٹر اور امریکہ کے کارندے ہوسکتے ہیں؟ ۔ چرارشریف کے ہیرو میجر مست گل جنہیں محترم قاضی صاحب نے ہی ہیرو کے طور پر متعارف کرایا تھا ‘ اس وقت وزیرستان میں تحریک طالبان کے ساتھ سرگرم عمل اور قاضی صاحب سے شدید ناراض ہیں ۔ اگر میجر مست گل ہندوستانی یا امریکی لابی کا حصہ تھے تو پھر انہیں قاضی صاحب نے ہیرو کے طور پر کیوں متعارف کرایا اور اگر وہ مجاہد اور ہیرو تھے تو پھر آج وہ بلیک واٹر یا سی آئی اے کا کارندہ کیسے ہوسکتے ہیں؟فاروق چوہان صاحب اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو یا بسم اللہ لیکن میرے جواب میں اگلا کالم لکھنے قبل محترم قاضی حسین احمد سے وہ خط پڑھنے کیلئے ضرور طلب کریں جو انہیں میجر مست گل نے بھیجا ہے اور جس میں انہوں نے ان بے وفائیوں کا ذکر کیا ہے جو بقول ان کے، ان کے ساتھ قاضی صاحب نے کی ہیں۔اتفاق یا اختلاف دوسری بات ہے۔ مجھے بھی تحریک طالبان کے لائحہ عمل سے اختلاف ہے لیکن ان کے وجود کا انکار کرنایا پھر ان سے متعلق کنفیوژن پھیلانا اسلام کی خدمت ہے ‘ پاکستان کی اور نہ خود جماعت اسلامی کی ۔
تازہ ترین