• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سال، سوا سال سے شور کپتان کے سونامی کا تھا، لیکن 4 دسمبر کو سونامی نوازشریف کا آگیا۔ (میاں صاحب سے معذرت کہ ان کے نزدیک ”سونامی“ کوئی ایسی چیز نہیں جس کی آرزو کی جائے۔ گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں اس سوال پر کہ وہ عمران خان کے سونامی سے کتنے فکر مند ہیں؟ ان کا جواب تھا، اللہ کسی جگہ سونامی نہ لائے کہ آپ بھی جانتے ہیں سونامی کیا ہوتا ہے؟ کپتان کی سیاست کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ وہ حکومت کی بجائے اپوزیشن کی اپوزیشن کررہے ہیں۔) پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کی دونوں نشستوں کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی بھی 6 میں سے 5 نشستیں جیت لیں (جہلم کی صوبائی نشست مسلم لیگ (ن) نے اوپن چھوڑ دی تھی کہ یہاں چودھری خادم حسین اور راجہ افضل، دونوں کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا اور بہت گہرا تھا۔ چودھری خادم حسین نے الیکشن جیت کر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا ”رسمی“ اعلان کردیا۔ یہ خدشہ موجود تھا کہ یہاں مسلم لیگی ووٹرز کی تقسیم کا فائدہ قاف لیگ اور پیپلزپارٹی کے مشترکہ امیدوار کو نہ پہنچ جائے لیکن چودھری خادم حسین 39 ہزار ووٹوں کے ساتھ فتح مند ٹھہرے تو دوسرے نمبر پر آنے والے مسلم لیگی راجہ افضل کے ووٹ بھی پیپلزپارٹی اور قاف لیگ کے مشترکہ امیدوار سے تقریباً چار ہزار زائد تھے۔ راجہ افضل نے 20515 اور محمد عارف نے 16882 ووٹ حاصل کئے۔سیاسی و صحافتی حلقوں کی نظریں قومی اسمبلی کے 2 حلقوں پر بطورِ خاص لگی ہوئی تھیں۔ ایک حلقہ گجرات کا تھا جہاں چودھری برادران اور پیپلزپارٹی کی کائرہ فیملی مل کر زور لگا رہی تھی کہ یہ ان دونوں کے لئے سیاسی زندگی اور موت کا مسئلہ تھا لیکن یہاں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ملک حنیف اعوان کو 1 لاکھ 6 ہزار ووٹوں کے ساتھ 30 ہزار کی سبقت حاصل ہوئی۔ سابق صدرِ پاکستان چوہدری فضل الٰہی مرحوم کا نواسا چوہدری رحمن نصیر مرالہ حکمران اتحاد کا مشترکہ امیدوار تھا۔ چیچہ وطنی میں قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب اسلئے دلچسپی کا خصوصی عنصر لئے ہوئے تھا کہ یہاں مسلم لیگ (ن) کے چوہدری زاہد اقبال کے مقابل تحریک انصاف کے معروف رہنما رائے حسن نواز امیدوار تھے، شامی صاحب کے بقول تحریک کے خفیہ امیدوار۔ حالانکہ وہ خفیہ نہیں بلکہ کھلے امیدوار تھے۔ کپتان کی بائیکاٹ کی ”اصولی“ پالیسی کے باعث ان کے پاس تحریک کا ٹکٹ نہیں تھا لیکن ان کے پوسٹر، بینر، فلیکس اور پمفلٹ کپتان کی بڑی بڑی تصاویر سے مزین تھے۔ تحریک کی مقامی قیادت اور جانے پہچانے کارکن سب ان کی مہم چلا رہے تھے۔ کوئی ایک ماہ قبل ہمیں ایک دوست کے ہاں تعزیت کیلئے چیچہ وطنی جانے کا اتفاق ہوا۔ (جناب الطاف حسن قریشی، شامی صاحب، سجاد میر، حفیظ اللہ نیازی اور شہزاد شامی بھی ساتھ تھے) شہر میں الیکشن کی بہار تھی۔ یہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ رائے صاحب مسلم لیگی ووٹرز میں یہ سرگوشی مہم بھی چلا رہے ہیں کہ وہ جدی پشتی مسلم لیگی ہیں اور جیت کر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا اعلان کردیں گے۔ (وہی شیخ رشید کی 2002ء کے الیکشن والی حکمت عملی، لیکن جناب شیخ یہ بات سرگوشی میں نہیں اپنے انتخابی جلسوں میں سرعام کہتے تھے کہ مجھے ووٹ دو، میں یہ دونوں نشستیں جیت کر نوازشریف کے قدموں میں ڈال دوں گا۔ تب شیخ صاحب کی یہ سیاسی واردات کامیاب رہی لیکن بعد میں کی جانے والی سیاسی بے وفائی پر مسلم لیگ اور نوازشریف کے ووٹرز نے جناب شیخ کو اب تک معاف نہیں کیا) چیچہ وطنی میں تحریک انصاف کے غیرسرکاری امیدوار رائے حسن نواز دو بار ضلع ناظم رہ چکے تھے اور اسے اپنی آبائی سیٹ سمجھتے تھے۔ وہ 65 ہزار ووٹ حاصل کرکے 10 ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ پیپلزپارٹی اور قاف لیگ کا مشترکہ امیدوار صرف 14 ہزار ووٹ حاصل کر پایا۔ اس حلقے میں ایک اور دلچسپ تجربہ بھی کیا جارہا تھا، ”دینی ووٹوں“ کے اتحاد کا تجربہ۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علماءِ اسلام (ف) کا مشترکہ امیدوار الخدمت گروپ کے نام سے میدان میں تھا جسے صرف 6934 ووٹ حاصل ہوئے۔ انہیں جماعت اور جمعیت میں تقسیم کیا جائے تو تقریباً ساڑھے 3 ہزار ووٹ ہر ایک کے حصے میں آتے ہیں تو کیا پنجاب کے ہر حلقے میں جماعت کے اتنے ہی ووٹ رہ گئے ہیں؟ (قاضی صاحب کے 1993ء کے اسلامک فرنٹ کا شکریہ) راولپنڈی کے حلقہ 55 کے ضمنی انتخاب (فروری 2010ء) میں جماعت کے ڈاکٹر کمال کے ووٹ صرف ساڑھے 3 ہزار تھے۔ تب کپتان کے امیدوار اعجاز جاجی کے ووٹ بھی تقریباً اتنے ہی تھے حالانکہ 2008ء کے الیکشن میں آزاد امیدوار کے طورپر انہوں نے 14 ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کر لئے تھے۔ اس الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے شکیل اعوان 62 ہزار ووٹوں کے ساتھ سرخرو ٹھہرے۔ ایوانِ صدر اور پیپلزپارٹی کی بھرپور تائید و حمایت کے باوجود شیخ رشید صرف 40 ہزار ووٹ حاصل کر پائے تھے۔ پھر لاہور کے حلقہ 123 کے ضمنی انتخاب میں بھی جماعت کے سلمان بٹ کے ووٹ ساڑھے 3 ہزار کے لگ بھگ تھے۔ اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کے پرویز ملک 40 ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ فتح مند ہوئے۔ کپتان نے اپنے امیدوار کے حق میں گلی گلی مہم چلائی لیکن وہ صرف 14 ہزار ووٹ حاصل کر پایا۔ اب 4 دسمبر کے ضمنی انتخابات میں ساہیوال کے صوبائی حلقے میں بھی تحریک انصاف کا غیرسرکاری امیدوار موجود تھا جو 14 ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ یہاں مسلم لیگ (ن) نے 42 ہزار 294 جبکہ قاف لیگ اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ امیدوار نے 35 ہزار 359 ووٹ حاصل کئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ چیچہ وطنی کے قومی اور ساہیوال کے صوبائی حلقے کے سوا تحریک انصاف دیگر ضمنی انتخابات سے لاتعلق رہی۔ باقی حلقوں میں تحریک کی ہمدردیاں اور ووٹ بھی مسلم لیگ (ن) کے مخالف امیدواروں کے ساتھ تھے۔ تحریک کی یہ حکمت عملی فطری تھی کہ عام انتخابات میں اس کا اصل ہدف مسلم لیگ (ن) ہی ہوگی۔یہ انتخابات پیپلزپارٹی پنجاب (وسطی) کے صدر منظور وٹو کی قیادت کے لئے بھی ایک آزمائش کی حیثیت رکھتے تھے جس میں وہ بری طرح ناکام رہے۔ ان کی ”ولولہ انگیز“ قیادت اپنے پڑوس، چیچہ وطنی اور ساہیوال میں بھی کوئی کرشمہ نہ دکھا سکی۔ ہماری معلومات کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی قیادت حالیہ ضمنی انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد آئندہ عام انتخابات کیلئے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ منصوبہ بندی کررہی ہے۔ ادھر حکمران اتحاد کھمبا نوچنے میں مصروف ہے۔ تحریک انصاف کا رویہ بھی مختلف نہیں۔ کپتان بیرون ملک چندہ مہم پر ہیں (ان دنوں سنگاپور میں) اور اندرونِ ملک تحریک انصاف اپنے داخلی انتخابات میں الجھی ہوئی ہے۔ ہمارے خیال میں حالیہ انتخابی نتائج میں کوئی بہت زیادہ چونکا دینے والی بات نہیں۔ اکتوبر میں پنجاب میں ہونے والے ایک عوامی سروے میں بھی یہی تصویر ابھری تھی جس کے مطابق ن لیگ کی مقبولیت 57 فیصد، تحریک انصاف کی 28 فیصد اور پیپلزپارٹی کی صرف 5 فیصد تھی جبکہ اس سے قبل اپریل کے سروے میں ن لیگ کی مقبولیت 46 اور تحریک انصاف کی 34 فیصد تھی۔ تحریک انصاف ”یوتھ“ پر اپنی اجارہ داری کی دعوے دار ہے لیکن یہاں بھی منظر بدل رہا ہے۔ لاہور کی گورنمنٹ کالج فار ویمن یونیورسٹی میں صوبائی دارالحکومت کے چھ بڑے تعلیمی اداروں کی طالبات موجود تھی۔ اس موقع پر کئے گئے رینڈم سروے میں ن لیگ کی مقبولیت 71 فیصد اور تحریک کی 28 فیصد تھی۔ یہ سروے ایک ایسے میڈیا گروپ نے کیا جو تحریک انصاف اور ایوانِ صدر سے قربت کی شہرت رکھتا ہے۔
تازہ ترین