• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملتان کے حلقہ 151میں ضمنی انتخاب کے بعد سیالکوٹ، جہلم، گجرات اور چیچہ وطنی کے ضمنی انتخابات نے کس امر واقعہ کی نشاندہی کی؟ کس امر واقعہ کو ثابت کیا؟ ذاتی انانیت کی بازی گریوں میں نہ پڑیں، دنیا عارضی ہے، یہ تھیوری نہیں وقوعہ ہے ہم سب کو مٹی میں ملنا ہے۔ کیا وجہ ہے کسی وقت ہم سچ کے قریب ہونے کی کوشش کریں۔ ضمنی انتخابات کے تناظر میں سچ یہی ہے کہ ملتان اور اس موقع پر بھی عوام کا جمہوریت پریقین اور ووٹ پر اعتماد نوشتہ دیوار بن کر سامنے آیا ہے۔ گویا اب عام قومی انتخابات کے انعقاد کو ملتوی، مسخ یا منسوخ کرنے کی کوئی بھی ”ایکٹویٹی“ پاکستان کو دیوار سے لگا سکتی ہے، پاکستان کی دھرتی زلزلے کی حالت میں تھرا اور پاکستانی آسمان مغلوب الغضب پیغام بر ثابت ہوسکتا ہے یسی ”ایکٹویٹی“ کی کوئی بھی صورت پھر ملک کو سنبھلنے نہیں دے گی۔ اخلاص یا سازش کسی بھی حوالے سے عام قومی انتخابات کے مخالفین کی ”ناکامی“ کے لئے پاکستانی عوام کو دل کی گہرائیوں سے اپنے گھروں کی چھتوں پر اذانیں دینی اور صفیں باندھ کر اجتماعی بددعا کرنا ہوگی۔ غالباً قیام پاکستان کے بعد یہ ہماری پہلی اجتماعی اذانیں اور دعا ہوگی جس کا تعلق ہمارے ذاتی تعصبات اور جنون سے نہیں پاکستان کی سالمیت اور انفرادی و اجتماعی عزت نفس ہوگا۔
ہم 1958ء ، 1969ء ، 1971ء، 1977ء، 1990ء، 1996ء اور 1999ء میں ناقابل تلافی تماشے کر چکے ہیں، ہمارے جرنیلوں اور ان کے بلا واسطہ اور بالواسطہ حامی دانشوروں نے سادہ لوح پاکستانی مسلمانوں کو ”مجلس شوریٰ“ جیسی دینی اصطلاحات کی جذباتیت میں پھنسا کر اپنی بدنیتی کے کھیل رچائے۔ تعلیم یافتہ پارلیمینٹ کے نام پر عوام کی پارلیمان کے قیام میں فطری شرکت کو ناممکن بنا کر اپنی حکمرانی کے ذہنی روگوں پر قربان کر دیا گیا جب ملک میں پارلیمان تمام تر رکاوٹوں اور خطاؤں کے باوجود اپنا آئینی سفر طے کرتی رہی حتیٰ کہ آج اپنے اس سفر کی آئینی تکمیل سے چند گام کے فاصلے پر رہ گئی ہے، ہم نے دہری شہریت، جعلی ڈگریوں، بلوچستان کے المیے اور کراچی کے آسیب کو ”مغرب“ کے معیار جمہوریت اور گورننس کے آئینے میں جانچ کر تنکا تنکا اور پرزے پرزے اکٹھے کرکے منتخب اور چلائے جانے والے پارلیمانی نظام کے شکستہ وضعف زدہ ڈھانچے کو پٹخنیاں دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ تو تائید غیبی کا زندگی آمیز اشاریہ محسوس ہوتا ہے جس کے صدقے پہلی سول جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت، آئینی وقار کے ساتھ پوری کرنے جا رہی ہے، آئندہ قومی انتخابات کا انعقاد آئین کی چھتری تلے ہونے کا امکان یقین کی حدیں چھونے لگا ہے۔ درست ہے بدقسمتی کا کوئی پتہ نہیں ہوتا، اتفاق سے یہی کلیہ خوش قسمتی پربھی لاگوہوتا ہے۔ دونوں مواقع کے ان ضمنی انتخابات میں ووٹروں کی آرزو مندی اور کتھارسس کا جوش و خروش زمانے کی لوح پر ثبت ہوگیا ہے ووٹروں کا یہ سیلابی ریلا ان عوام پر ہی مشتمل تھا جنہیں لوڈشیڈنگ، مہنگائی، گیس کی عدم دستیابی، اقتصادی حملہ آوری، جرائم کی بارشوں، ریاستی اداروں کی درندگیوں، انسانی حیات میں امید اور انصاف سے مایوس کر دینے والے حکمران، کروفر کی برچھیوں کے دہشت انگیز زخموں نے چلنے پھرنے تک سے معذور کر دیا ہے۔ جاں بلب پاکستانی ووٹروں کا یہ لشکارے بھرتا ٹرن اوور ان ناعاقبت اندیش دماغی اپاہجوں کے فکری خرخشوں پر قدرت کی بے آواز لاٹھی کا برسنا بھی ہے جن کی آدھے آدھے صفحے پر پھیلی ہوئی تحریریں واشنگٹن، دبئی یا اپنی نفسیاتی طغیانیوں کی کالی آندھیوں کا مجموعہ ہوتی ہیں، ان ساڑھے چار برسوں میں عوام کے حق بالغ رائے دہی پر فنکارانہ حسن کے ساتھ بدمعیت ڈاکہ زنی کی عصیاں کاری میں انہوں نے پاکستانی عوام کے منتخب صدر اور پارلیمان کو نیست و نابود کرنے کے لئے نفرت اور خوف کے مینارے تعمیر کئے۔ حقیقتاً یہ لوگ ذاتی نفس پرستی کے شعلوں میں گھرے رہتے ہیں، ان کی سوچوں میں کبھی پھول نہیں کھلتے، یہ صرف اندھیروں کے مکیں ہیں۔ انہیں فقط بدصورتیاں ہی مطمئن کرتی ہیں! پاکستان دو لخت ہوا، حمود الرحمن کمیشن بیٹھا، 42برس گزرنے کو ہیں، ساون آئے، ساون گئے، خون کے چھینٹے ویسے ہی ہیں جیسے تھے۔ بلوچستان کی کہانی پچاس برس پہلے نو روز خان کے ساتھ ایوب کی عہد شکنی اور اس کے بیٹوں کی پھانسی سے شروع ہوئی۔ آج مسنگ پرسنز اور پراکسی وار کے مراحل طے کر رہی ہے۔ کراچی: ایک بچی بس کے نیچے آئی، خاکی اور غیر خاکی خفیہ ایجنسیاں پردوں کے پیچھے متحرک ہوئیں۔ اقتدار پر فائز بڑے جرنیل اور ساتھیوں نے سیاسی بساطیں بچھائیں، اپنی من مرضی سے ریاستی شطرنج کے لطف اٹھائے، حاصل کے طور پر کراچی علاقائی جماعتوں، گروہوں، قبضہ مافیاؤں اور جرائم پرست ٹولوں کے سب سے بڑے ”حب“ میں ڈھلنے لگا، طالبان کافنامنا پاکستان کی ریاست اور سماج پر برق بن کے گرا، طالبان کے روایتی مراکز کے بعد کراچی ان کی سب سے زیادہ پیداواری رسدگاہ ہے۔ جلد باز انصاف کے فورموں اور اپنی نابالغ حب الوطنی کے باعث شہر کے امراض کی تاریخی جڑوں، شناخت اور اعتراف کے بغیر محض اپنی عظمتوں کے دماغی مالیخولیا کے جھنڈے گاڑنا چاہتے ہیں خواہ یہ عظمتیں مریض کو زندگی ہی سے کیوں نہ محروم کردیں، یہی حال قومی اور انفرادی، ریاستی اور غیر ریاستی کرپشن، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، تعلیم پر سب سے کم بجٹ مختص کیا جانا، وغیرہ وغیرہ اور مزید وغیرہ۔ پاکستان کی اس داستان کا تعلق پچاس سے ساٹھ برس پر مشتمل ہمارے اعمال سے ہے، ان اعمال کے نتائج سے نجات ہر پانچ برس بعد پاکستانیوں کے ووٹ کا استعمال ہے۔ یہی واحد علاج ہے باقی جو کچھ کیا یا کہا جا رہا ہے وہ بعض جگہوں پر دنیا جیتنے کا جنون اور بعض جگہوں پر مقدس نشست کی امانت داری پاکستانیوں کے مصائب کا اونٹ سوئی کے ناکے میں سے گزارنے پر تلی ہوئی ہے، ہمیں اپنے طرز فکر اور طرز عمل کا یہ نہایت امیچور باب بند کرکے ہر چار برس بعد منتخب جمہوری نظام کا قیام ممکن بنانا چاہئے۔ پاکستان وقت کے ساتھ خود ہی جنت نظیر بنتا چلا جائے گا۔
ایک آخری بات!
متوقع عام قومی انتخابات میں ناقابل تصور بڑا ”اپ سیٹ“ ناگزیر دکھائی دیتا ہے، اس کی نوعیت یکجہتی نہیں، مطلب یہ کہ صرف تحریک انصاف ہی اس پلڑے میں نہیں تلے گی، سہ جہتی محسوس ہوتی ہے اس قابل تصور بڑے ”اپ سیٹ“ کا ڈبل یہ ہے کہ اس میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی نظر آرہی ہے!
بقول میرے عزیز آفتاب اقبال، ہیں جی!
بہرحال ”وقت آچکا ہے، صورتحال کچھ اور ہی ہو کے رہے گی“۔
تازہ ترین