• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ کسی ملک کی ترقی وہی ہے جو اس کے ہر علاقے اور ہر فرد تک پہنچے، ایسا نہ ہونے کی صورت میں نتائج کس قدر بھیانک ہوسکتے ہیں اس کا تجربہ ہم ستر کی دہائی میں کر چکے۔ اس کے بعد بھی سبق سیکھ لیا جاتا تو حالات کو قابو میں لایا جاسکتا تھا لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا نتیجہ یہ برآمد ہواکہ صوبے ایک دوسرے اور وفاق سے شاکی رہنے لگے، ایسی صورتحال ملک دشمن عناصر کے لئے آئیڈیل ہوا کرتی ہے تاکہ وہ نفرت کی چنگاریوں کو ہوا دے سکیں، بلوچستان اور فاٹا ہی کیا دیگر صوبوں کو بھی این ایف سی ایوارڈ پر تحفظات رہے جن کا دور کیا جانا ناگزیر ہے بلکہ پس ماندہ رہ جانے والے علاقوں پر زیادہ توجہ دے کر انہیں قومی دھارے میں لانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ دریں حالات وفاقی کابینہ کے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں اجلاس کے فیصلے خوش آئند قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ اور لیکویفایڈ نیچرل گیس کے منصوبوں پر نظرثانی، این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کا مالیاتی حصہ کم کرنے جبکہ کراچی کے فنڈز کے ٹھیک طرح سے استعمال نہ ہونے کی شکایت پر شہر کی بہتری کے لئے گورنر سندھ کی سربراہی میں ٹاسک فورس قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بتایا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کر کے فاٹا کو 3فیصد دیں گے۔ وزیراعظم نے فوری طور پر این ایف سی ایوارڈ کے طریقہ کار پر نظر ثانی کا کہا ہے۔کراچی کی ترقی اور معاملات کا حل تحریک انصاف کا ایجنڈا ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ملکی سیاسی اور معاشی صورت حال سمیت دس نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ وفاقی کابینہ کی طرف سے ملک کو درپیش چیلنجز کے حل کی جانب پیش رفت ایک اہم اقدام ہے اور احسن امر یہ کہ کابینہ میں ان معاملات کو اولیت دی جارہی جو فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ فاٹا، بلوچستان اور کراچی کے حوالے سے کیا جانے والا فیصلہ اہم ترین گردانا جائے گا کہ پاکستان کا 27ہزار مربع کلومیٹر پر محیط اور 56 لاکھ افراد پر مشتمل یہ علاقہ قیام پاکستان کے بعدسے امسال مئی تک وفاق کے زیر انتظام تھا اور یہاں پاکستانی قوانین کی بجائے دورِ غلامی کا ایف سی آر نامی ظالمانہ قانون رائج تھا جو انگریز نے برصغیر پر حکومت کے دوران نافذ کیا تھا۔ مئی 2018ء کے اواخر میں فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام کیا گیا تو 10سال میں ترقیاتی کاموں کے لئے اضافی فنڈز فراہم کرنے کی بھی توثیق کی گئی، یہ بھی کہا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24ارب کے ساتھ سالانہ سو ارب روپے اضافی ملیں گے اور دس سال تک ملتے رہیں گے اور یہ رقم کسی اور جگہ استعمال نہ ہوگی۔ امید ہے حکومت کے فیصلے سے سات دہائیوں سے محروم فاٹا کی محرومیاں خاصی حد تک دور ہوں گی۔ انفرااسٹرکچر بنے گا، صحت اور تعلیم کی سہولیات بہم ہوں گی اور یہاں کے لوگ قومی دھارے میں شامل ہوں گے۔ وفاقی کابینہ کے دیگر فیصلے بھی کم اہم نہیں جن میں ایل این جی ٹرمینل آپریٹرز کے ’’غیر شفاف‘‘ ٹھیکوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے کافیصلہ بھی شامل ہے، اس معاملے پر بہت سے سوالات موجود ہیں جن کا جواب ملنا ضروری ہے اور اسے انتقامی کارروائی اس لئے بھی قرار نہیں دیا جاسکتا کہ یہ مہنگی خریدی گئی۔ جہاں تک کراچی کی بات ہے اس شہر کی ترقی اور امن سے پاکستان کی ترقی مشروط ہے کہ یہ شہر پاکستان کا فنانشل حب ہے۔ ترقیاتی کاموں کیلئے گورنر سندھ کی سربراہی میں کمیٹی کا قیام یقیناً اس شہر کی رونقیں بحال کرنے کا موجب ہوگا۔ ارتھ کو ئیک ری کنسٹرکشن اینڈ ری ہیبلیٹیشن اتھارٹی(ایرا)کے خاتمے کا اعلان بھی اس حوالے سے اہم ہے کہ زلزلہ آئے 13برس بیت چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کام ہنوز نامکمل ہے۔ وفاقی کابینہ کے حالیہ فیصلے اہم ہیں تاہم ان پر عملدرآمد کے لئے نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ صوبوں کو بھی خلوص نیت سے کام کرنا ہوگا کہ ہمیں پاکستان کو نہ صرف بحرانوں سے نکالنا ہے بلکہ ترقی کی اس راہ پر گامزن کرنا ہے جس کی منزل خودکفالت ہے۔

تازہ ترین