• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کے عام انتخابات سے دو دن قبل صوبہ قندھار میں فائرنگ سے صوبائی پولیس چیف عبدالرازق، خفیہ ایجنسی کے مقامی سربراہ عبدالمومن اور ایک فوٹو گرافر کی ہلاکت کے واقعہ پر وزیراعظم پاکستان عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ردّعمل جہاں انسانی جانوں کے زیاں پر تشویش کا مظہر ہے وہاں اس حقیقت کی نشان دہی بھی کرتا ہے کہ افغانستان میں امن پورے خطّے کے امن کی بھی ناگزیر ضرورت ہے۔ مبینہ طور پر صوبائی گورنر کے ذاتی محافظ کی طرف سے کیا گیا مذکورہ حملہ، جس میں دو امریکی اور صوبائی گورنرزلمے ویسا سمیت 13افراد زخمی ہوئے اور امریکی کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر بال بال بچے، اس وقت کیا گیا جب حکام گورنر ہائوس میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد ہیلی پیڈ کی طرف جا رہے تھے۔ ایسے وقت، کہ افغانستان میں فوجی موجودگی کی حامل سپرپاور مزاحمت کاروں سے مذاکرات پر آمادگی کے اشارے دے رہی ہے، مذکورہ سنگین واقعہ کا رونما ہونا اور طالبان کی طرف سے اس کی ذمہ داری قبول کرنا ظاہر کرتا ہے کہ مزاحمت کار باضابطہ مکالمے کیلئے زیادہ طاقتور پوزیشن حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں جبکہ اس نوع کے واقعات کا ایک منفی رخ یہ بھی ہے کہ امریکہ ماضی کا وہی طرز عمل دہرائے جو افغانستان پر قابض سوویت فوجوں کے انخلا کے وقت امریکہ کے خطے میں استحکام کے تقاضے پورے کیے بغیر اچانک چلے جانے کی صورت میں نظر آیا اور حصول اقتدار کیلئے طالبان گروپوں کی باہمی جنگ نے نہ صرف افغانستان کو کھنڈر بنا دیا تھا بلکہ پاکستان کو بھی مسائل بھگتنا پڑے۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے اسی لئے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو صورتحال مستحکم ہونے تک انخلا نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ امریکہ اور مزاحمتی قوتوں کیلئے سودمند یہی ہے کہ حقائق کا ادراک کریں اور گرائونڈ ورک کیلئے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، وہ افغان مذاکرات میں سہولت کاری کیلئے امکان بھر کردار ادا کرتا رہا ہے مگر اس سے ایسے نتائج یقینی بنانے کی فرمائشیں حقیقت پسندانہ نہیں جن پر اس کا کوئی اختیار نہیں۔

تازہ ترین