• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پاکستان ہی نہیں پورے عالم میں انسانی حقوق کی صورتحال کہیں بد اور کہیں بد تر ہے ۔حال ہی میں سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خشوگی کا استنبول میں قتل بلاشبہ لرزہ خیز ہے ۔مسلم ورلڈ کے جس ملک میں جھانک کر دیکھیں انسانی حقوق کے جنازے اٹھتے دکھائی دیں گے درویش نے اس کا جتنا بھی کھوج لگایا ہے اس کی بنیادی وجہ آزادی اظہار کا فقدان ہے ۔

اس وقت معصوم زینب کا قاتل عمران علی ذہن میں آرہا ہے جو بظاہر ’ ’ حُب‘‘کا مذہبی چولا پہنے ہوئے تھا لیکن اسی لبادے میں معصوم انسانی جانوں سے جو کھلواڑ کر رہا تھا اُسے ذہن میں لائیں تو سو پھانسیاں بھی کم ہیں۔ بلاشبہ دنیا کو ایسے نا سوروں سے پاک کیے جانے کا اہتمام ہونا چاہیے لیکن یہ ناسور تیار کیسے ہوتے ہیں اور پنپتے کس طرح ہیں۔اس کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے ۔ہم عرض کرتے ہیں کہ آج اگر جدید سائنسی ایجادات نہ ہوئی ہوتیں تو کسی بھی صورت ایسے گھناؤنے عادی مجرم تک پہنچنا ممکن نہ ہو پاتا۔ہمارے جدید معاشرے کو پارسائی کے روایتی معیارات و تصورات کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا جن کےسائے میں انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والے لاکھوں ناسور مضبوط پناہ گاہیں بنائے بیٹھے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کا اولین تقاضا ہے کہ ہر انسان اس وقت تک بے گناہ ہے جب تک کہ وہ گناہ گار ثابت نہ ہو جائے اور بارِ ثبوت ملزم پر نہیں الزام لگانے والے پر ہے مگر وطنِ عزیز میں انوکھی ہوا چلی ہے کہ یہاں نیب کی نظروں میں ہر شخص گناہ گار ہے ۔آزادی اظہار سے محروم فضا میں نیب کی کارکردگی کا جائزہ لینا کتنا مشکل ہے۔وہ چاہے ملک کے سابق وزیراعظم کو پکڑ لے یا سابق وزیر اعلیٰ کو یا سابق وائس چانسلر کو جس کی چاہے پگڑی اچھالے ۔

حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر کامران مجاہد کی جس طرح ’’عزت افزائی‘‘ کی گئی ہے انہیں بغیر کسی ریفر نس کے پکڑا اور ہتھکڑیاں لگا کر نیب کورٹ میں پیش کیا گیا یہ حرکت تمام قومی اداروں کی بے عزتی ہے ۔ رے جو نونہال پڑھ لکھ کر ان پروفیسروں کے ہاتھوں ڈگریاں لیتے رہے ہیں اس کے بعد اُن کی یا ان کے ہاتھوں میں موجود ڈگریوں کی کیا عزت رہ گئی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ سابق منتخب وزیراعظم کے بارے میں فرمان جاری ہوا کہ انہوں نے انڈیا میں 4ارب 80کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اب نئے پاکستان میں تبدیلی کی علمبردار حکومت قائم ہوچکی ہے لوگ پوچھتے ہیں کہ اتنے بڑے الزام کی اب تک کیا تحقیقات ہوئی ہیں ؟اس سلسلے میں جو بھی پیش رفت ہوئی ہے قوم کو اس سلسلے میں آگاہ کیا جائے لیکن اگر وہ الزام برائے الزام تھا تو پھر کچھ تو عقل مندی کا مظاہرہ کیا جائے۔

یہاں کس کس بے انصافی کا رونا رویا جائے سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے جو تلخ نوائی کی ہے کاش اس کی حقیقت کو بھی سمجھا جائے ۔پروٹوکول ختم کرنے کے درجنوں اعلانات کئے گئے مگر واقعات دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ ان لوگوں سے زیادہ پروٹوکول کا شوقین تو شاید پورے پاکستان میں کوئی نہیں ۔جنہیں شک ہے وہ اپنے صدر اور وزیراعظم کی آنیاں جانیاں دیکھ لیں، پھر بھی شک رہ جائے تو گورنر سندھ کی تھرمیں آمد کے کلپس سوشل میڈیا پر ملاحظہ کرلیں۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کی وجوہ کا بھی ٹھنڈے پیٹو ںجائزہ لے لو۔۔۔ضمنی انتخابات میں بقول آپ کےتو عمومی جیت ہوتی ہی حکمران پارٹی کی ہے تو پھر آپ کیوں نہ ہر سیٹ جیتے؟ ابھی تو آئے ہوئے دو مہینے بھی مکمل نہیں ہوئے کہ خود پارٹی چیئرمین اور منتخب وزیرا عظم کی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی دو سیٹیں آپ لوگ ہار گئے۔ جن چار حلقوں کی د ہا ئی دیتے ہوئے آپ لوگوں نے آسمان سر پر اٹھائے رکھا آج ان چاروں حلقوں میں آپ ہارے ہیں ۔

آپ کی نظر میں مہنگائی کوئی ایشو نہیں ہے لیکن عوام کے نزدیک ان کا سب سے بڑا ایشو یا مسئلہ کشمیر، مہنگائی ہی ہے ۔آپ خسارہ بڑھانے والی سبسڈی ختم کرنا چاہ رہے ہیں کر دیں لیکن عوام سے ان کی دال روٹی تو نہ چھینیں ۔آپ بیجنگ جائیں یا ریاض عوام کو آپ کی آنیوں جانیوں میں کوئی دلچسپی نہیں وہ تو اپنے لیے محض حق زندگی مانگتے ہیں جبکہ صحافی لوگ حق آزادی اظہار کے طلبگار ہیں ۔کبھی آپ فرماتے ہیں کہ ہم IMF کے پاس جارہے ہیں پھر خبر آتی ہے کہ نہیں دوستوں کے پاس جارہے ہیں ۔کبھی بہانہ ڈالتے ہیں کہ سابق حکمران خزانہ خالی کر گئے ہیںحالانکہ یہ الزام تو پیہم لگایا جاتا رہا ہے کہ حکمران ساری قومی دولت لوٹ کر ملک سے باہر لے گئے ہیں ملک کو کنگال بنا دیا گیا ہے ۔ ہم آئیں گے تو لوٹی ہوئی تمام دولت ملک میں واپس لائیں گے، بلکہ ہمارے آنے پر تارکینِ وطن بھی اپنے خطیر سرمائے کے ساتھ ملک میں دوڑے چلے آئیں گے یوں ملک میں دولت کی لہر بہر ہو جائے گی ۔ آپ کے حواری چلا چلا کر کہتے تھے کہ دو سو ارب ڈالر امریکہ کے منہ پر مارے جائیں گے اتنے سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی ۔۔۔وہ منہ پر مارے جانے والے اور سرمایہ کاری پر لگائے جانے والے اربوں ڈالر جن کے خواب دکھائے گئے تھے وہ کہاں رہ گئے ہیں ؟

دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعودی عرب کو سی پیک میں تیسرا پارٹنر بنا لیا گیا ہے اس پر چین کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ سعودی تیل کی بروقت نزدیکی ترسیل اس کے بھی اپنے مفاد میں ہے مگر اس دعوے کو بعدازاں خود ہی ہوا میں اڑا دیا گیا۔رہ گیا IMF تو اس سے آپ کا گلہ کرنا بنتا ہی نہیں، IMF والوں کو بھی کم از کم اتنی عقل تو ہونی چاہیے کہ وہ اپنی شرائط پر قرضہ دیں۔یہ غریب عوام پوچھ رہے ہیں کہ سابق حکمران اگر ملک لوٹ کر باہر لے گئے تھے تو وہ لوگ ملک کو بہتر اسلوب میں چلا کیسے رہے تھے ؟انہوں نے مہنگائی کو کنٹرول کیسے کر رکھا تھا؟ ڈالر کی اڑان کو کیسے قابو کیا تھا؟ آج آپ لوگوں کے آتے ہی ڈالر جن بلندیوں کی طرف گامزن ہے اس سے تو غریب عوام کا کچومر نکل جائے گا ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین