• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیوروکریٹس کی روٹیشن پالیسی، عمران خان نے دباؤ مسترد کر دیا

اسلام آباد (انصار عباسی) وزیراعظم عمران خان اپنی پسند کے علاقوں میں پوسٹنگ چھوڑنے سے ہچکچانے والے سرکاری ملازمین کے تبادلے کیلئے بنائی جانے والی روٹیشن پالیسی، جسے بین الصوبائی ٹرانسفر پالیسی بھی کہا جاتا ہے، کے معاملے میں سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے دبائو کو یکسر مسترد کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ تاہم، صوبائی حکومتوں کے اعتراض کے بعد پالیسی میں تبدیلی کی گئی ہے، صوبوں کا کہنا تھا کہ پالیسی پر عملدرآمد کیلئے انہیں بھی مشاورتی عمل کا حصہ بنایا جائے۔ وزیراعظم کے ایک قریبی ساتھی نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ اب تک 90؍ فیصد سے زائد ٹرانسفر آرڈرز کی تعمیل کی جا چکی ہے، باقی پر عملدرآمد ہونا ہے جبکہ چند کو عدالتی احکامات کی وجہ سے فی الحال زیر التوا رکھا گیا ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ ایک بھی ٹرانسفر آرڈر منسوخ نہیں ہوا۔ اب حکومت ٹرانسفر کے دوسرے مرحلے پر کام کیا جا رہا ہے جس میں سینئر پولیس اہلکاوں کو صوبوں اور وفاق کے درمیان تبدیل کیا جائے گا۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران، وزیراعظم اور ساتھ ہی اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری پر دبائو تھا کہ وہ بااثر بیوروکریٹس (سرکاری ملازمین) کے حق میں پالیسی پر عملدرآمد نظرانداز کر دیں۔ تاہم، تمام تر دبائو، حتیٰ کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتوں کے پریشر کے باوجود وزیراعظم نے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی اور کسی بھی استثنیٰ کے ساتھ پالیسی پر عملدرآمد کرایا۔ روٹیشن پالیسی میں عمران خان کی جانب سے کی جانے والی ترمیم یہ ہے: ’’پی اے ایس / پی ایس پی (پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس / پولیس سروس آف پاکستان) کے گریڈ 21؍ اور اس کے کم کے افسران، جنہوں نے کسی بھی صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت میں مسلسل کم از کم 10؍ سال تک خدمات انجام دی ہیں، کو وفاقی حکومت یا دیگر صوبوں میں عوامی مفاد کے تحت ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے۔ مسلسل 10؍ سال کے عرصہ کے تعین کیلئے ای اول / استحقاقی رخصت ، رخصت / رخصت برائے تعلیم / او ایس ڈی / تربیت / ڈیپوٹیشن / غیر ملکی تعیناتی کو شامل نہیں کیا جائے گا اور اسے بریک تصور نہیں کیا جائے گا۔ اس پالیسی کے تحت، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے پہلے مرحلے میں 20؍ اور 21؍ گریڈ کے درجنوں سینئر پی اے ایس افسران کے تبادلوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ ان میں اکثر افسران نے نئے علاقوں میں جوائننگ دیدی ہے لیکن کچھ ایسے افسران تھے جو اپنی پسند کے علاقوں / صوبوں کو چھوڑنے پر رضامند نہیں تھے۔ ایسے افسران تھے جنہوں نے صوبائی حکومتوں، سینئر بیوروکریٹس اور دیگر با اثر حلقوں کے ذریعے وزیراعظم پر اور ساتھ ہی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پر دبائو ڈالا تاکہ انہین روٹیشن پالیسی میں تبادلوں سے استثنیٰ مل سکے۔ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ روٹیشن پالیسی میں اگر ایسے دبائو کارگر ثابت ہوئے تو اس کا نتیجہ پالیسی کی بربادی نکلے گا جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ کئی برسوں کے تعطل کے بعد، عمران خان کی حکومت نے پی اے ایس اور پی ایس پی گروپ کے انتہائی بااثر بیوروکریٹس کو وفاق اور صوبوں کے درمیان ٹرانسفر کرکے روٹیشن کے معاملے میں جرأت دکھائی ہے اور اس بات کی قیاس آرائیاں بھی تھیں کہ عمران خان پالیسی پر عمل کر پائیں گے یا نہیں۔ تقریباً 30؍ سال میں آنے والی تمام حکومتیں اپنی اپنی روٹیشن پالیسی تیار کرتی رہی ہیں لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف سمیت بھی اپنے مارشل لاء کے دور میں اس طرح کی پالیسی پر عمل نہیں کرا سکے۔ ماضی میں ہر مرتبہ، پالیسی اپنے اجراء کے پہلے ہی ہفتے میں مسائل کا شکار ہو جاتی تھی کیونکہ حکومت بااثر بیوروکریٹس کے دبائو کی وجہ سے انہیں ایک کے بعد ایک کرکے استثنیٰ دے دیتی تھی کیونکہ وہ اپنی پسند کے صوبوں سے باہر پوسٹنگ نہیں چاہتے تھے۔ بین الصوبائی ٹرانسفر پالیسی، گزشتہ چند دہائیوں کے درمیان خوابیدہ رہی۔ اس پالیسی کو قومی ہم آہنگی کیلئے اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ ایک صوبے کے افسر کو دوسرے صوبوں میں خدمات انجام دینے کیلئے مقرر کیا جاتا ہے تاکہ وہ تمام علاقوں اور صوبوں کے عوام کی خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسیاں تشکیل دے سکیں۔ پی اے ایس اور پی ایس پی کو تمام پاکستان سروسز میں شامل رکھا جاتا ہے اور ان کی کیڈر پوسٹ کو تمام صوبوں اور وفاق میں شامل رکھا جاتا ہے۔ تاہم، ان میں سے زیادہ تر کیسز میں ان سروسز سے تعلق رکھنے والے افسران اپنے صوبوں میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں اور دیگر صوبوں میں تعیناتی سے بچتے ہیں۔

تازہ ترین