• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’قلعہ دراوڑ‘‘ 9 ویں صدی کا شاندار تعمیراتی شاہکار

قلعہ دراوڑ جنوبی پنجاب کے ضلع بہاول پور کی تحصیل احمد پور میں شہر سے تقریبا ً 100 کلو میٹر شمال کی طرف واقع ہے۔

صحرائےاچولستان کے دل میں واقع یہ قلعہ اپنے آپ میں ایک تاریخ سموئے ہوئے ہے ۔ قلعے کی دیواریں اور عالی شان تعمیرات ماضی کی عظیم تہذیب کی گواہی دیتی ہیں،تاہم قلعہ کی خستہ حالی کا بندوبست نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ جلد ہی یہ تاریخی ورثہ کھنڈرات میں تبدیل ہوجائے گا۔

تاریخ

قلعہ دراوڑ کے نام اور تعمیر کے بارے میں مورخین کی آرا مختلف ہیں۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اس قلعہ کو نویں صدی میں رائے ججا نے تعمیر کروایا جو ایک راجپوت حکمران تھا۔ بعض مورخین کے مطابق قلعہ کو راول دیو راج بھاٹی نے تعمیر کروایا، جو جیسلمیر اور بہاولپور ریاست کا خودمختار راجپوت حکمران تھا۔ اس لیے قلعہ کو دیوراول کہا جانے لگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دیو راول سے دیو راور اور پھر دراوڑ بن گیا، جو اس کا موجودہ نام بھی ہے۔ یہ قلعہ جیسلمیر ریاست کا حصہ تھا۔ 1733ء میں نواب آف بہاولپور نواب محمد خان اول نے اس قلعہ پر حملہ کیا اور راجہ راول سنگھ کو شکست دے کر اس قلعہ پر اپنی حاکمیت قائم کی۔ یوں یہ قلعہ ریاست بہاولپور کا حصہ بن گیا۔ جیسلمیر کے راجہ راول سنگھ نے 1747ء میں قلعہ پر دوبارہ قبضہ جما لیا لیکن 1808ء میں نواب آف بہاولپور نے دوبارہ قلعہ پر حملہ کرتے ہوئے راجہ راول سنگھ کو شکست دی اور ایک بار پھر یہ قلعہ ریاست بہاولپور کا حصہ بن گیا۔ اس کے بعد سے یہ قلعہ ان کے خاندان کی حکمرانی میں رہا۔ عباسیوں نے اس کی تعمیرات میں بیش قیمت اضافہ کیا، اس میں موتی مسجد بھی شامل ہے، جسے دلی کے لال قلعہ میں واقع مسجد کے مماثل مغلیہ فن تعمیر پر بنایا گیا۔ ساتھ ہی اس قلعہ سے ایک خفیہ سرنگ بھی بنائی گئی جو نور محل سے منسلک ہوتی تھی، عباسی نوابوں کی قلعہ میں آمد ورفت کا سلسلہ یہیں سے جاری رہا۔

طرزِ تعمیر

قلعہ دراوڑ کی 30میٹر بلندوبالا بل کھاتی مربع شکل کی دیواریں، قلعہ کے جاہ و جلال کی ایک عظیم داستان بیان کرتی ہیں۔قلعہ دراوڑ کا آرکیٹیکچراس ثقافتی میل ملاپ کا سنگم ہے، جو مغل اس برصغیر میں اپنے ساتھ لائے۔مغل طرزِ تعمیر کے اس شاہکار قلعہ میں آپ کوفارس، تیموری اورہندو طرزِ تعمیر کی مشترک خوبیاں نظر آئیں گی۔نظری اعتبار سے اسے آپ دیوارِ سندھ رنی کوٹ سےمشابہ قلعہ قرار دے سکتے ہیں۔ صحرائے چولستان کے عین درمیان واقع اس قلعے کا طلسمی نظارہ دیکھنے والوں کو حیران کر دیتا ہے۔اس کی سرمئی، کتھئی اور سنہری رنگت ماحول کو سحر زدہ کر دیتی ہے۔ چولستان کا یہ آئی کونک اسٹرکچر نظرانداز ہورہا ہے۔ 

ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی دیواریں گر رہی ہیں۔ پاکستان کے ثقافتی ورثے میں عظیم مقام حاصل ہے، لیکن اس کی تعمیر نو پر ذرا بھی توجہ مرکوز نہیں کی گئی۔قلعہ میں 40 پلوں سمیت ایک کنواں، ایک مرکزی دروازہ اور ایک بڑا تالاب ہے، جو سیاحوں کی خصوصی دلچسپی کا مرکز ہے۔ تالاب اب خشک ہو چکا ہے۔ قلعہ میں موجود اکثر کمروں کی دیواریں اور چھتیں گر چکی ہیں جبکہ مرکزی دیواریں بھی کمزور پڑ چکی ہیں، جن کے کسی بھی وقت گرنے کا خدشہ ہے۔ قلعہ کے صحن نما میدان میں ایک قدیم اور تاریخی توپ بھی موجود ہے، جو جنگ کے دوران دشمنوں کے خلاف استعمال کی جاتی تھی مگر آج یہ توپ بھی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ توپ کے ساتھ ایک سرنگ بھی بنائی گئی تھی، جو قلعہ کے خفیہ راستوں سے ہوتی ہوئی جیسلمیر تک جاتی تھی، جسے بعد میں بند کر دیا گیا تھا۔

تعمیراتی جاہ و جلال

قلعہ دراوڑ میں دوسرے قلعوں کے مقابلے میں بیرونی آرائش کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے، جو حکمرانوں کے جاہ و جلال کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ دفاع و زیبائش کے حوالے سے کتنے حساس تھے۔ اندرونی طور پر مضبوط دفاعی قلعے کا اندازہ اس کی موٹی دیواروں اور بلند و بالا میناروں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اتنی صدیاں بیت جانے کے باوجود یہ قلعہ اپنی مکمل رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ بیرونی دیواروں کو پکی اینٹوں سے آراستہ کیا گیا ہے، جو اُچ شریف سے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک ہاتھوں کی قطار کی صورت یہاں پہنچیں کیوں کہ اس دور میںنقل و حمل کے ذرائع ناکافی تھے۔ یہ مقامی ماہرینِ تعمیرات کی مشترکہ کاوش ہے اور یہ اپنے حاکم سے وفاداری و ایثار کی بھی زریں مثال ہے۔ قلعہ کے تمام اطراف برج نما فصیلوں کو موٹی اور پکی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے، جس سے نہ صرف قلعہ بندی ممکن ہوئی بلکہ دیکھنے والوں کے لیے بھی یہ دیواریں دلفریب منظر پیش کرتیں ہیں۔ اس کی کل42فصیلیں تھیں، جن پر جیومیٹری کی اشکال میں کندہ آرائشی کام اس دور کے ماہرینِ تعمیرات کے ذوق کی اعلیٰ مثال ہے۔ اس کے اندر فوجیوں اور شاہی خاندان کی رہائشیں تھیں۔

دلچسپ حقائق

٭ قلعہ دراوڑ کو چولستان میں داخل ہونے کا دروازہ،’’بابِ چولستان‘‘ بھی کہا جاتاہے۔

٭ قلعہ دراوڑ کو پاپولر میوزک ویڈیوز میں پس منظر کے طور پر فلمایا جاچکا ہے۔

٭ صحرائے چولستان میں ہر سال منعقدہ جیپ ریلی کے آغاز کا ابتدائی نقطہ دراوڑ قلعہ ہوتا ہے۔ یہ ریلی تین اضلاع سے گزرتی ہے، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔

٭ برطانوی ادوار میں یہاں قیدیوں کوقید رکھا جاتا تھا اور یہی وہ جگہ ہے جہاں کچھ مکینوں کو پھانسی بھی دی گئی۔

٭روہی کے اس ریگستان میں قلعہ دراوڑ جیسے40قلعے ہیں، جو بے توجہی کا شکار ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان کے سیاحتی مقاموں میں چولستان کی پہچان قلعہ دراوڑ ہی ہے لیکن اسی کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جا رہا ہے، جبکہ غیرملکی اس عظیم ورثے کی تعریف کرتے ہیں۔

تازہ ترین